(آیت 11) ➊ هُنَالِكَ ابْتُلِيَ الْمُؤْمِنُوْنَ: یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ امتحان ہو جائے کہ ایسے سخت حالات میں کون ایمان پر قائم رہتا ہے اور کس کے قدم ڈگمگا جاتے ہیں۔
➋ وَ زُلْزِلُوْا زِلْزَالًا شَدِيْدًا: چاروں طرف سے لشکروں کے ہجوم اور شہر کے اندر سے بنو قریظہ کی عہد شکنی کی خبر سے مسلمانوں کی یہ حالت ہوئی جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہے۔ اس وقت خوف کی حالت کا اور مسلمانوں کی جانفشانی کا اندازہ زبیر اور حذیفہ رضی اللہ عنھما کے بیانات سے ہوتا ہے۔ جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احزاب کے دن فرمایا: [ مَنْ يَأْتِيْنَا بِخَبَرِ الْقَوْمِ؟ ]”کون ہے جو ہمارے پاس ان (بنو قریظہ کے یہودی) لوگوں کی خبر لائے؟“ زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا: ”میں ہوں۔“ آپ نے پھر فرمایا: ”کون ہے جو ہمارے پاس ان لوگوں کی خبر لائے؟“ زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا: ”میں ہوں۔“ پھر فرمایا: ”کون ہے جو ہمارے پاس ان لوگوں کی خبر لائے؟“ زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا: ”میں ہوں۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ إِنَّ لِكُلِّ نَبِيٍّ حَوَارِيًّا، وَ إِنَّ حَوَارِيَّ الزُّبَيْرُ ][ بخاري، المغازي، باب غزوۃ الخندق و ھي الأحزاب: ۴۱۱۳ ]”ہر نبی کا ایک حواری (خاص مددگار) ہوتا ہے اور میرا حواری زبیر ہے۔“ ابراہیم تیمی کے والد بیان کرتے ہیں کہ ہم حذیفہ رضی اللہ عنہ کے پاس تھے، ایک آدمی کہنے لگا: ”اگر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پا لیتا تو آپ کے ساتھ مل کر لڑتا اور پوری کوشش لگا دیتا۔“ تو حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ”تو ایسا کرتا؟ حالانکہ میں نے اپنے آپ کو اور اپنے ساتھیوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ احزاب کی رات دیکھا اور ہمیں سخت آندھی اور سردی نے گھیرا ہوا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ أَلَا رَجُلٌ يَأْتِيْنِيْ بِخَبَرِ الْقَوْمِ جَعَلَهُ اللّٰهُ عَزَّ وَ جَلَّ مَعِيَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟ ]”کیا کوئی آدمی ہے جو میرے پاس ان لوگوں کی خبر لائے، اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن میرے ساتھ کر دے گا؟“ ہم خاموش رہے، کسی نے آپ کو جواب نہیں دیا، پھر فرمایا: ”کیا کوئی آدمی ہے جو میرے پاس ان لوگوں کی خبر لائے، اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن میرے ساتھ کر دے گا؟“ ہم خاموش رہے اور کسی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب نہیں دیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ قُمْ يَا حُذَيْفَةُ! فَأْتِنَا بِخَبَرِ الْقَوْمِ ]”حذیفہ! اٹھو اور ہمارے پاس ان لوگوں کی خبر لے کر آؤ۔“ اب میرے پاس کوئی چارہ نہ تھا، کیونکہ آپ نے میرا نام لے کر مجھے اٹھنے کا کہا تھا۔ آپ نے فرمایا: [ اِذْهَبْ فَأْتِنِيْ بِخَبَرِ الْقَوْمِ وَلَا تَذْعَرْهُمْ عَلَيَّ ]”جاؤ، میرے پاس ان لوگوں کی خبر لے کر آؤ اور انھیں مجھ پر اکسا نہ دینا (یعنی ایسا کوئی کام نہ کرنا جس کی وجہ سے وہ بھڑک اٹھیں)۔“ جب میں آپ کے پاس سے نکلا تو ایسے محسوس ہوتا تھا جیسے میں حمام میں چل رہا ہوں، یہاں تک کہ میں ان کے پاس پہنچ گیا۔ میں نے دیکھا کہ ابوسفیان آگ کے ساتھ اپنی پیٹھ سینک رہا تھا۔ میں نے تیر کمان پر چڑھایا اور ارادہ کیا کہ اسے نشانہ بناؤں، تو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات یاد آ گئی کہ انھیں مجھ پر اکسا نہ دینا اور اگر میں تیر مار دیتا تو سیدھا اسے لگتا، پھر میں واپس آیا تو ایسے ہی محسوس ہوتا تھا جیسے میں حمام میں چل رہا ہوں۔ جب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا تو میں نے آپ کو ان لوگوں کی خبر بیان کی اور فارغ ہوا تو مجھے سردی نے آ لیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنا ایک زائد کمبل اوڑھا دیا، جسے آپ اوڑھ کر نماز ادا کیا کرتے تھے۔ میں صبح تک سویا رہا، جب صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ قُمْ يَا نَوْمَانُ! ]”بہت زیادہ سونے والے! اٹھ جاؤ۔“[ مسلم، الجھاد والسیر، باب غزوۃ الأحزاب: ۱۷۸۸ ]