(آیت 24) ➊ وَ جَعَلْنَا مِنْهُمْ اَىِٕمَّةً يَّهْدُوْنَ بِاَمْرِنَا: اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے کچھ ایسے امام اور پیشوا بنائے جو لوگوں کی رہنمائی ہمارے حکم کے ساتھ کرتے تھے۔ ظاہر ہے اللہ کے حکم کے ساتھ رہنمائی وہی لوگ کر سکتے ہیں جو اس کا علم رکھتے ہوں، اس میں بنی اسرائیل کے انبیاء بھی شامل ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے پہلے ابراہیم، اسحاق اور یعقوب علیھم السلام کے متعلق فرمایا: « وَ جَعَلْنٰهُمْ اَىِٕمَّةً يَّهْدُوْنَ بِاَمْرِنَا وَ اَوْحَيْنَاۤ اِلَيْهِمْ فِعْلَ الْخَيْرٰتِ وَ اِقَامَ الصَّلٰوةِ وَ اِيْتَآءَ الزَّكٰوةِ وَ كَانُوْا لَنَا عٰبِدِيْنَ »[ الأنبیاء: ۷۳ ]”اور ہم نے انھیں ایسے پیشوا بنایا جو ہمارے حکم کے ساتھ رہنمائی کرتے تھے اور ہم نے ان کی طرف نیکیاں کرنے اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کی وحی بھیجی اور وہ صرف ہماری عبادت کرنے والے تھے۔“ اور بنی اسرائیل کے وہ علماء بھی جو ہدایت پر قائم تھے اور لوگوں کو اللہ کے حکم کے مطابق اس ہدایت کی طرف دعوت دیتے تھے۔ یہ ہدایت اللہ کی کتاب تھی اور اس پر ایمان لانے والے دو طرح کے لوگ تھے، ایک وہ ائمہ جو اللہ کے حکم کے مطابق رہنمائی کرتے تھے اور دوسرے ان کے وہ پیروکار جو اس رہنمائی پر عمل کرتے تھے۔ پہلی قسم کے لوگوں کا مقام نبوت کے بعد سب سے بلند ہے، فرمایا: « يَرْفَعِ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ »[ المجادلۃ: ۱۱ ]”اللہ ان لوگوں کو درجوں میں بلند کرے گاجو تم میں سے ایمان لائے اور جنھیں علم دیا گیا۔“
➋ لَمَّا صَبَرُوْا وَ كَانُوْا بِاٰيٰتِنَا يُوْقِنُوْنَ: یعنی ان ائمہ کو پیشوائی کا یہ مقام دو وجہ سے حاصل ہوا، ایک صبر کی وجہ سے کہ انھوں نے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے احکام کی بجا آوری پر باندھ کر اور اس کی منع کردہ چیزوں سے روک کر رکھا۔ وہ اللہ کے دین کی دعوت دیتے رہے اور اس کے لیے جہاد کرتے رہے اور انھوں نے اس راستے میں پیش آنے والی ہر مصیبت پر صبر کیا۔ دوسرے اللہ تعالیٰ کی آیات پر یقین کی وجہ سے کہ وہ دنیاوی فائدوں اور لذتوں میں پھسل جانے والے نہیں تھے، بلکہ اللہ تعالیٰ کی آیات اور اس کے وعدوں پر یقین رکھنے والے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ امامت کا مقام وہی لوگ حاصل کر سکتے ہیں جو صبر اور اللہ تعالیٰ کی آیات پر یقین کے وصف سے آراستہ ہوں۔