(آیت 23) ➊ وَ لَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ فَلَا تَكُنْ فِيْ مِرْيَةٍ مِّنْ لِّقَآىِٕهٖ: ” لِقَآىِٕهٖ “ کی ضمیر ” الْكِتٰبَ “ کی طرف بھی لوٹ سکتی ہے اور لفظ ” مُوْسَى “ کی طرف بھی۔ پہلی صورت میں وہی بات دہرائی ہے جو سورت کے شروع میں فرمائی تھی کہ اس لاریب کتاب کا نازل کرنا رب العالمین کی طرف سے ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس سے پہلے ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو کتاب دی، اب آپ کو کتاب ملی ہے، تو آپ اس کتاب کے ملنے میں کسی قسم کے شک میں مبتلا نہ ہوں۔ ہماری طرف سے کتاب کا عطا کیا جانا کوئی نئی بات نہیں، ہم پہلے بھی رسولوں کو کتابیں عطا کرتے رہے ہیں، جیسا کہ فرمایا: « قُلْ مَا كُنْتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ وَ مَاۤ اَدْرِيْ مَا يُفْعَلُ بِيْ وَ لَا بِكُمْ اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا يُوْحٰۤى اِلَيَّ وَ مَاۤ اَنَا اِلَّا نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ »[ الأحقاف: ۹ ]” کہہ دے میں رسولوں میں سے کوئی انوکھا نہیں ہوں اور نہ میں یہ جانتا ہوں کہ میرے ساتھ کیا کیا جائے گا اور نہ (یہ کہ) تمھارے ساتھ (کیا)، میں تو بس اسی کی پیروی کرتا ہوں جو میری طرف وحی کیا جاتا ہے اور میں تو بس واضح ڈرانے والا ہوں۔“ اس میں اگرچہ اول مخاطب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، مگر مراد ہر سننے والا ہے کہ کوئی بھی سننے والا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کتاب ملنے میں کسی قسم کے شک میں نہ رہے، آپ کو کتاب ملنا ایسے ہی ہے جیسے ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو کتاب دی، یہ کوئی انوکھی بات نہیں۔ اس تفسیر کے مطابق ” الْكِتٰبَ “ سے مراد خاص تورات نہیں، جنس کتاب ہے، یعنی ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو کتاب دی تو آپ بھی کتاب ملتے ہی کوئی شک نہ کریں۔ اور ”لِقَاءٌ“ سے مراد کتاب کا ملنا ہے، جیسا کہ فرمایا: « وَ اِنَّكَ لَتُلَقَّى الْقُرْاٰنَ مِنْ لَّدُنْ حَكِيْمٍ عَلِيْمٍ »[ النمل: ۶ ]”اور بلاشبہ یقینا تجھے قرآن ایک کمال حکمت والے،سب کچھ جاننے والے کے پاس سے عطا کیا جاتا ہے۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے قریب ترین پیغمبر اگرچہ عیسیٰ علیہ السلام ہیں، مگر ایک تو تمام بنی اسرائیل ان پر ایمان نہیں لائے اور ایک یہ کہ وہ بھی تورات ہی کے احکام پر عمل کرتے تھے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے بجائے موسیٰ علیہ السلام کو کتاب دینے کا ذکر فرمایا۔ بعض مفسرین نے ” الْكِتٰبَ “ کی طرف ضمیر لوٹانے کی صورت میں یہ معنی کیا ہے کہ آپ موسیٰ علیہ السلام کو کتاب ملنے کے بارے میں شک نہ کریں۔
دوسری صورت میں یعنی جب ” لِقَآىِٕهٖ “ کی ضمیر موسیٰ علیہ السلام کی طرف جا رہی ہو تو معنی یہ ہو گا کہ آپ موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ اپنی ملاقات کے بارے میں کسی قسم کے شک میں نہ رہیں، جو معراج کی رات بیت المقدس میں اور چھٹے آسمان پر ہوئی، جیسا کہ صحیح بخاری اور دوسری کتب احادیث میں مذکور ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ رَأَيْتُ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِيْ مُوْسٰی رَجُلاً آدَمَ طُوَالاً جَعْدًا، كَأَنَّهُ مِنْ رِجَالِ شَنُوْئَةَ، وَ رَأَيْتُ عِيْسٰی رَجُلاً مَرْبُوْعًا مَرْبُوْعَ الْخَلْقِ إِلَی الْحُمْرَةِ وَ الْبَيَاضِ، سَبْطَ الرَّأْسِ، وَرَأَيْتُ مَالِكًا خَازِنَ النَّارِ وَ الدَّجَّالَ فِيْ آيَاتٍ أَرَاهُنَّ اللّٰهُ إِيَّاهُ، فَلاَ تَكُنْ فِيْ مِرْيَةٍ مِنْ لِّقَائِهِ][بخاري، بدء الخلق، باب إذا قال أحدکم آمین و الملائکۃ في السماء…: ۳۲۳۹ ]”میں نے اس رات جب مجھے رات کو لے جایا گیا، موسیٰ (علیہ السلام) کو دیکھا، بہت لمبے گٹھے ہوئے جسم یا گھونگریالے بالوں والے، گویا وہ شنوء ہ قبیلے کے آدمیوں سے ہیں اور میں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو دیکھا، میانہ قد، سرخی اور سفیدی کی طرف مائل سیدھے بالوں والے اور میں نے جہنم کے دربان مالک اور دجال کو دیکھا، من جملہ ان کئی اور نشانیوں کے جو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھائیں۔ (سورۂ سجدہ میں اسی کا ذکر ہے کہ) پس تو اس کی ملاقات کے بارے میں کسی شک میں نہ رہ۔“
➋ وَ جَعَلْنٰهُ هُدًى لِّبَنِيْۤ اِسْرَآءِيْلَ: ” جَعَلْنٰهُ “ میں ”هٗ“ کی ضمیر کتاب کے لیے ہے، یعنی ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو دی جانے والی کتاب کو بنی اسرائیل کے لیے ہدایت بنا دیا۔ پہلے اسی مضمون کی آیت سورۂ بنی اسرائیل (۲) میں گزر چکی ہے۔