(آیت 20) ➊ وَ اَمَّا الَّذِيْنَ فَسَقُوْا فَمَاْوٰىهُمُ النَّارُ:” الَّذِيْنَ فَسَقُوْا “ سے مراد کفار ہیں، جیسا کہ پیچھے گزرا۔ ”مَاْوَاهُمْ “ کی خبر” النَّارُ “ معرف باللّام آنے کی وجہ سے کلام میں حصر پید اہو گیا کہ ”ان کا ٹھکانا آگ ہی ہے۔“ یعنی کفار کی جہنم سے نکلنے کی کوئی صورت نہیں۔
➋ كُلَّمَاۤ اَرَادُوْۤا اَنْ يَّخْرُجُوْا مِنْهَاۤ اُعِيْدُوْا فِيْهَا …: ظاہر ہے جہنم سے کفار کے نکلنے کی تو کوئی صورت ہی نہیں، تو وہ آگ سے نکلنے کا ارادہ کیسے کریں گے۔ اس کا اندازہ سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے مروی ایک لمبی حدیث سے ہوتا ہے، جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی چیزوں کا ذکر فرمایا، جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو خواب میں دکھائیں۔ ان میں سے ایک چیز یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ فَانْطَلَقْنَا إِلٰی ثَقْبٍ مِثْلِ التَّنُّوْرِ أَعْلَاهُ ضَيِّقٌ وَ أَسْفَلُهُ وَاسِعٌ يَتَوَقَّدُ تَحْتَهُ نَارًا فَإِذَا اقْتَرَبَ ارْتَفَعُوْا حَتّٰی كَادَ أَنْ يَخْرُجُوْا، فَإِذَا خَمَدَتْ رَجَعُوْا فِيْهَا، وَ فِيْهَا رِجَالٌ وَنِسَاءٌ عُرَاةٌ، فَقُلْتُ مَنْ هٰذَا؟ قَالَا انْطَلِقْ… وَالَّذِيْ رَأَيْتَهُ فِي الثَّقْبِ فَهُمُ الزُّنَاةُ ][ بخاري، الجنائز، باب: ۱۳۸۶ ]”پھر ہم ایک سوراخ کی طرف چلے جو تنور کی طرح تھا، اس کا اوپر کا حصہ تنگ اور نیچے کا کھلا تھا۔ اس کے نیچے سے آگ بھڑک رہی تھی، جب وہ اوپر قریب آتی تو وہ اوپر اٹھ آتے، یہاں تک کہ نکلنے کے قریب ہو جاتے، جب وہ ماند پڑتی تو واپس اسی میں لوٹ جاتے۔ میں نے کہا: ”یہ کون ہیں؟“ تو دونوں فرشتوں نے کہا: ”آگے چلو۔“… (تمام مشاہدات کے بعد ان فرشتوں نے بتایا)”تم نے اس سوراخ میں جو کچھ دیکھا وہ زانی لوگ تھے۔“ واضح رہے کہ ایک ہی حال میں رہنے میں تکلیف کی وہ شدت نہیں ہوتی جو بار بار اس کے دہرانے سے ہوتی ہے۔ جہنمیوں کے لیے آگ کے ماند ہونے پر ہر مرتبہ اس کی تیزی اور بڑھا دی جائے گی، جیسا کہ فرمایا: « مَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُ كُلَّمَا خَبَتْ زِدْنٰهُمْ سَعِيْرًا »[ بني إسرائیل: ۹۷ ]”ان کا ٹھکانا جہنم ہے، جب کبھی بجھنے لگے گی ہم ان پر بھڑکانا زیادہ کر دیں گے۔“ اور فرمایا: « كُلَّمَاۤ اَرَادُوْۤا اَنْ يَّخْرُجُوْا مِنْهَا مِنْ غَمٍّ اُعِيْدُوْا فِيْهَا »[ الحج: ۲۲ ]”جب کبھی ارادہ کریں گے کہ سخت گھٹن کی وجہ سے اس سے نکلیں، اس میں لوٹا دیے جائیں گے۔“