(آیت 18) اَفَمَنْ كَانَ مُؤْمِنًا كَمَنْ كَانَ فَاسِقًا …: ”فِسْقٌ“ کا لفظ ”فَسَقَتِ الثَّمَرَةُ“ سے نکلا ہے، جب پھل پھٹ کر چھلکے سے نکل جائے، پھر اطاعت سے نکل جانے کے معنی میں استعمال ہونے لگا۔ یہ لفظ نافرمان مومن پر بھی بولا جاتا ہے اور کافر پر بھی، جیسا کہ فرمایا: « وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ »[ النور: ۵۵ ]”جس نے اس کے بعد کفر کیا تو یہی لوگ نافرمان ہیں۔“ اس آیت میں فاسق سے مراد کافر و مشرک ہے، کیونکہ مومن کے مقابلے میں آ رہا ہے۔ کفار کے لیے عذاب کی وعید اور مومنوں کے لیے نعمتوں کی نوید کا ذکر آیا تو اس پر کوئی کج بحث کہہ سکتا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے خزانوں میں کیا کمی ہے، وہ چاہے تو جس طرح دنیا میں اس نے مومن و کافر سبھی کو اپنی نعمتیں دے رکھی ہیں، آخرت میں بھی دونوں کو نواز دے۔ فرمایا، یہ تو عدل و حکمت ہی کے خلاف ہے، بھلا ایک ماننے والا اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو نہ ماننے والا ہے؟ ایک مطیع و فرماں بردار شخص اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو نافرمان اور باغی ہے؟ دونوں کبھی برابر نہیں ہو سکتے، نہ دنیا میں ان کی زندگی کا انداز ایک ہے، نہ موت کے وقت اور نہ آخر ت میں ایک ہو گا۔ اس مضمون کی آیات کے لیے دیکھیے سورۂ صٓ (۲۸)، حشر (۲۰) اور جاثیہ (۲۱) یہ آخرت کے ثواب و عقاب کی نہایت عمدہ دلیل ہے، کیونکہ اگر اس دنیا کے بعد کوئی دوسری زندگی نہ ہو تو نیک و بد سب یکساں ہو جائیں اور نیک و بد کا یکساں ہو جانا پروردگار عالم کی حکمت کے بالکل خلاف ہے۔