(آیت 11) ➊ قُلْ يَتَوَفّٰىكُمْ مَّلَكُ الْمَوْتِ الَّذِيْ وُكِّلَ بِكُمْ: یعنی تم اپنے آپ کو محض بدن اور دھڑ سمجھتے ہو کہ خاک میں رل مل کر برابر ہو گئے۔ ایسا نہیں، بلکہ تم اصل میں ”جان“(روح) ہو، جسے فرشتہ لے جاتا ہے، بالکل فنا نہیں ہوتے۔ (موضح)” وُكِّلَ بِكُمْ “ کے لفظ سے معلوم ہوا کہ فرشتہ وہی جان نکالتا ہے جس کا اسے حکم ہو، خود اس کا اختیار کچھ نہیں۔
➋ ثُمَّ اِلٰى رَبِّكُمْ تُرْجَعُوْنَ:” اِلٰى رَبِّكُمْ “ پہلے لانے کی وجہ سے ترجمہ کیا گیا ہے: ”پھر تم اپنے رب ہی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔“
➌ ملک الموت کا نام عام طور پر عزرائیل مشہور ہے، مگر کتاب و سنت میں یہ بات کہیں مذکور نہیں، محض اسرائیلی روایت ہے۔ دوسری آیات میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ لوگوں کو ایک فرشتہ نہیں بلکہ کئی فرشتے فوت کرتے ہیں، جیساکہ فرمایا: « حَتّٰۤى اِذَا جَآءَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَ هُمْ لَا يُفَرِّطُوْنَ »[ الأنعام: ۶۱ ]”یہاں تک کہ جب تمھارے کسی ایک کو موت آتی ہے اسے ہمارے بھیجے ہوئے قبض کر لیتے ہیں اور وہ کوتاہی نہیں کرتے۔“ مزید دیکھیے سورۂ نساء (۹۷)، انعام (۹۳) اور سورۂ محمد (۲۷) اہلِ علم نے اس کی توجیہ یہ فرمائی ہے کہ روحیں قبض کرنے پر مقرر فرشتہ ایک ہی ہے جس کا یہاں ذکر ہے، لیکن اس کے ساتھ مدد کرنے والے فرشتے بھی ہیں جو مختلف طرح سے اس کی مدد کرتے ہیں، جیسا کہ براء بن عازب رضی اللہ عنہما کی طویل حدیث میں مومن اور کافر کی جان نکلنے کا ذکر ہے کہ ملک الموت جب میت کی روح نکالتا ہے تو دوسرے فرشتے اس کے ہاتھ سے تیزی کے ساتھ لے کر آسمان کی طرف چڑھتے ہیں۔ [ دیکھیے مسند أحمد: 287/4، ح: ۱۸۵۶۱ ]