ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: [ كَانَ النَّبِيُّ صَلّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ يَقْرَأُ فِي الْجُمُعَةِ فِيْ صَلاَةِ الْفَجْرِ: «الٓمّٓ (1) تَنْزِيْلُ» [ السجدة] وَ: « هَلْ اَتٰى عَلَى الْاِنْسَانِ »[الدهر ] ][ بخاري، الجمعۃ، باب ما یقرأ في صلاۃ الفجر یوم الجمعۃ: ۸۹۱ ]”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن فجر کی نماز میں سورۂ سجدہ اور سورۂ دہر کی تلاوت کیا کرتے تھے۔“
(آیت 2،1)الٓمّٓ (1)تَنْزِيْلُ الْكِتٰبِ لَا رَيْبَ فِيْهِ مِنْ رَّبِّ الْعٰلَمِيْنَ:” الٓمّٓ “ کے متعلق دیکھیے سورۂ بقرہ کی پہلی آیت۔ ” الْكِتٰبِ “ میں الف لام عہد کا ہے، اس لیے ترجمہ ”اس کتاب“ کیا گیا ہے۔ ” مِنْ رَّبِّ الْعٰلَمِيْنَ “” تَنْزِيْلُ الْكِتٰبِ “ کی خبر ہے۔ جملہ ” لَا رَيْبَ فِيْهِ “ معترضہ ہے یا ” الْكِتٰبِ “ کی صفت، یا اس سے حال ہے۔ آیت میں قرآن مجید کے متعلق دو باتیں بیان کی گئی ہیں، ایک یہ کہ یہ کتاب رب العالمین کی طرف سے نازل کی گئی ہے، دوسری یہ کہ اس میں کوئی شک نہیں۔ کوئی شک نہ ہونے سے مراد یہ بھی ہے کہ اس میں بیان کردہ ہر بات یقینی ہے، کسی بات میں شک کی گنجائش نہیں اور یہ بھی مراد ہے کہ اس کے رب العالمین کی طرف سے نازل شدہ ہونے میں کوئی شک نہیں۔ اگر کسی کو شک ہے تو اللہ تعالیٰ نے اسے دور کرنے کا طریقہ بھی بتایا ہے، فرمایا: « وَ اِنْ كُنْتُمْ فِيْ رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰى عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِهٖ وَ ادْعُوْا شُهَدَآءَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ »[ البقرۃ: ۲۳ ]”اور اگر تم اس کے بارے میں کسی شک میں ہو جو ہم نے اپنے بندے پر اتارا ہے تو اس کی مثل ایک سورت لے آؤ اور اللہ کے سوا اپنے حمایتی بلا لو، اگر تم سچے ہو۔“ حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید سب سے بڑا معجزہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا گیا، جس کے مقابلے سے پوری مخلوق عاجز ہے۔