(آیت 34) ➊ اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ: قیامت کے ذکر پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کب آئے گی؟ اور یہی سوال کفار بار بار کرتے تھے۔ اس لیے فرمایا، اس کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اور اسے مخفی رکھنا اللہ تعالیٰ کی خاص حکمت ہے، تاکہ ہر شخص اس کے لیے ہر وقت تیار رہے اور ہر شخص کو اس کے عمل کی جزا ملے۔ (دیکھیے طٰہٰ: ۱۵)” عِنْدَهٗ “ کو پہلے لانے سے تخصیص کا معنی پیدا ہوا کہ قیامت کا علم صرف اس کے پاس ہے، کسی اور کے پاس نہیں۔ دیکھیے سورۂ اعراف (۱۸۷)، احزاب (۶۳) اور نازعات (۴۲ تا ۴۴) حدیث جبریل میں جبریل علیہ السلام کے سوال ”مَتَي السَّاعَةُ؟“(قیامت کب ہے؟) کے جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ مَا الْمَسْئُوْلُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ ]”جس سے پوچھا گیا ہے وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا۔“… پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ فِيْ خَمْسٍ لَا يَعْلَمُهُنَّ إِلَّا اللّٰهُ: «اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ وَ يُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَ يَعْلَمُ مَا فِي الْاَرْحَامِ» ][ بخاري، التفسیر، باب قولہ: «إن اللہ عندہ علم الساعۃ» : ۴۷۷۷ ]”قیامت کا علم ان پانچ چیزوں میں سے ہے جنھیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی: «اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ وَ يُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَ يَعْلَمُ مَا فِي الْاَرْحَامِ» [ لقمان: ۳۴ ] ابن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ مَفَاتِيْحُ الْغَيْبِ خَمْسٌ، ثُمَّ قَرَأَ: «اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ» ][ بخاري، التفسیر، باب قولہ: «إن اللہ عندہ علم الساعۃ» : ۴۷۷۸ ]”غیب کی چابیاں پانچ ہیں۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی: «اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ» [ لقمان: ۳۴ ]
➋ وَ يُنَزِّلُ الْغَيْثَ: اس کا عطف ” عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ “ پرہے، گویا عبارت یوں ہے ”وَ إِنَّ اللّٰهَ يُنَزِّلُ الْغَيْثَ“ یعنی اللہ تعالیٰ ہی بارش اتارتا ہے، اور جو اتارتا ہے وہی جانتا ہے کہ کہاں اتارنی ہے، کب اتارنی ہے اور کتنی اتارنی ہے، اس کے سوا کسی کو یہ بات معلوم نہیں۔ یہاں ایک سوال ہے کہ” وَ يُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَ يَعْلَمُ مَا فِي الْاَرْحَامِ “ دونوں جملوں میں حصر پر دلالت کرنے والا کوئی لفظ نہیں، جس کا ترجمہ یہ ہو کہ اللہ تعالیٰ ہی یہ کام کرتا ہے۔ اس کا سب سے قوی جواب تو وہ ہے جو شنقیطی نے دیا ہے کہ یہ بات کہ یہاں حصر مراد ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث سے ثابت ہے، جیسا کہ اوپر گزرا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر قرآن مجید اور لغت عرب کو جاننے والا کوئی نہیں۔ ویسے علمائے عربیت نے کئی طرح سے یہاں حصر ثابت فرمایا ہے جن میں سے ایک جواب یہاں بیان کیا جاتا ہے۔ سب سے پہلے تو یہ دیکھیے کہ اگر کہا جاتا کہ”إِنَّ عِلْمَ السَّاعَةِ عِنْدَ اللّٰهِ“ تو جملہ مختصر بھی ہوتا اور بات بھی ادا ہو جاتی، مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ” اِنَّ اللّٰهَ “ اور اس کی خبر ” عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ “ بیان فرمائی۔ اس میں دو طرح سے حصر ہے، لفظ ” اللّٰهَ “ کو زیادہ صراحت کے ساتھ پہلے لانا، پھر خبر کے جملہ میں ” عِنْدَهٗ “ کو مقدم کرنا، جس سے تخصیص پیدا ہوئی۔ گویا جملے کی ابتدا جو حصر کے ساتھ ہوئی، وہی حصر ” وَ يُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَ يَعْلَمُ مَا فِي الْاَرْحَامِ “ میں بھی ملحوظ ہے، کیونکہ ان دونوں کا عطف جملہ ” عِلْمُ السَّاعَةِ “ پر ہے۔ بعض اوقات عامۃ الناس کی طرف سے ایک سوال آتا ہے کہ آج کل سائنس اتنی ترقی کر گئی ہے کہ محکمہ موسمیات والے پہلے ہی پیش گوئی کر دیتے ہیں کہ فلاں دن بارش ہو گی، اگر یہ مفاتیح الغیب سے ہے، جن کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں، تو وہ کیسے بتا دیتے ہیں؟ جواب اس کا یہ ہے کہ علم یقین کا نام ہے، ظن و تخمین اور گمان کو علم نہیں کہتے۔ محکمہ موسمیات والے اپنے تجربے کے مطابق ہوا کے دباؤ اور فضا میں موجود نمی وغیرہ کو دیکھ کر بارش ہونے یا نہ ہونے کا اعلان کر دیتے ہیں، مگر کبھی ان کی بات درست ثابت ہوتی ہے کبھی نادرست۔ بعض اوقات تجربے کے مطابق بارش ہونے کے تمام اسباب ہوتے ہیں مگر بادل ایک بوند برسائے بغیر گزر جاتے ہیں اور بعض اوقات بارش کے اسباب میں سے کچھ بھی موجود نہیں ہوتا کہ یکایک تمام اسباب پیدا ہو کر بارش شروع ہو جاتی ہے۔ اس کی دلیل کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ بارش کب، کہاں اور کتنی ہو گی محکمہ موسمیات والوں کا یہ اعلان بھی ہے کہ آج بارش کا امکان ہے۔ سوفیصد علم نہ ان کے پاس ہے نہ ان کا دعویٰ ہے۔ آیت پر اعتراض کرنے والوں کا حال ” مدعی سست گواہ چست“ والا ہے۔
➌ وَ يَعْلَمُ مَا فِي الْاَرْحَامِ: اس کا عطف بھی ” عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ “ پر ہے: ” أَيْ إِنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ“ یعنی اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ ماؤں کے پیٹوں میں کیا ہے۔ یہاں بھی یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ آج کل الٹراساؤنڈ سے معلوم ہو جاتا ہے کہ پیدا ہونے والا لڑکا ہے یا لڑکی۔ اس کے جواب میں عموماً علمائے اسلام فرماتے ہیں کہ آیت کے الفاظ یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ ماؤں کے پیٹوں میں لڑکا ہے یا لڑکی، بلکہ فرمایا ” مَا فِي الْاَرْحَامِ “ کہ جو کچھ پیٹوں میں ہے، ضروری نہیں کہ اس سے مراد لڑکا یا لڑکی ہی لیا جائے، بلکہ مراد اس سے یہ ہے کہ جنین زندہ رہنے والا ہے یا ضائع ہو جانے والا، طویل عمر والا ہے یا تھوڑی عمر والا، خوش بخت ہے یا بد نصیب، تندرست رہے گا یا بیمار ہو گا۔ سو اگر اس کی جنس معلوم ہو بھی جائے کہ لڑکا ہے یا لڑکی، تب بھی قرآن کے بیان پر کوئی حرف نہیں آتا۔ یقینا یہ جواب بہت عمدہ ہے، مگر ابھی تک یہ دعویٰ کہ الٹراساؤنڈ سے لڑکے یا لڑکی کی جنس معلوم ہو جاتی ہے، سوفیصد درست ثابت نہیں ہوا۔ خود ڈاکٹر حضرات کہتے ہیں کہ جنین کی وضع پیٹ میں ایسی ہوتی ہے کہ اس کے اعضائے تناسل اس کے سر کے نیچے چھپے ہوتے ہیں اور الٹراساؤنڈ کے ذریعے سے اندازے ہی کی بنیاد پر فیصلہ کیا جاتا ہے جو اکثر صحیح ہوتا ہے اور کبھی غلط بھی نکلتا ہے۔ اس لیے یہ کہنا کہ الٹراساؤنڈ سے جنس معلوم ہو جاتی ہے، سوفیصد درست نہیں۔ الٹرا ساؤنڈ کی شہرت کے باوجود میں نے اپنی زندگی میں دو دفعہ الٹرا ساؤنڈ کی پیش گوئی تمام دنیا کے سامنے غلط ثابت ہوتی ہوئی دیکھی ہے، ایک دفعہ برطانیہ کے ولی عہد کی بیوی لیڈی ڈیانا کے ہاں ڈاکٹروں نے اعلان کیا کہ لڑکی پیدا ہو گی، مگر ان کے اعلان کے برعکس لڑکا پیدا ہوا۔ دوسرا پاکستان کی سابقہ وزیراعظم بے نظیر کے ڈاکٹر نے اعلان کیا کہ لڑکا پیدا ہو گا، مگر لڑکی پیدا ہوئی۔ اب آپ سوچیں کہ برطانیہ اور پاکستان کے ان اونچے مناصب پر فائز لوگوں کے پاس الٹراساؤنڈ کے ماہرین کی کیا کمی تھی؟ حقیقت یہ ہے کہ اگر الٹراساؤنڈ کے ذریعے سے ایک ہزار بچوں کے متعلق پیش گوئی کی جائے، جن میں سے نوسو ننانوے درست اور ایک غلط نکلے تو بھی اسے علم نہیں کہہ سکتے، کیونکہ علم وہ ہے جو یقینی ہو، کبھی غلط نہ نکلے۔ البتہ اگر کوئی آپریشن کرکے آنکھوں سے بچے کی جنس دیکھ لے تو قرآن کی بات پھر بھی اپنی جگہ قائم ہے کہ یہ بات کہ بچہ دانیوں میں کیا ہے اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے، کیونکہ ”کیا ہے“ میں لڑکے لڑکی کی جنس کے علاوہ بے شمار باتیں داخل ہیں۔
➍ وَ مَا تَدْرِيْ نَفْسٌ مَّا ذَا تَكْسِبُ غَدًا: مسروق فرماتے ہیں کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنھا سے پوچھا: ”اماں جان! کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے؟“ انھوں نے فرمایا: ”تم نے جو بات کہی اس سے تو میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے، کیا تم ان تین باتوں سے بھی ناواقف ہو؟ جنھیں جو بھی تمھیں بیان کرے وہ جھوٹ کہے گا۔“ پھر فرمایا: [ مَنْ حَدَّثَكَ أَنَّ مُحَمَّدًا صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ رَأَی رَبَّهُ فَقَدْ كَذَبَ، ثُمَّ قَرَأَتْ: «لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ وَ هُوَ يُدْرِكُ الْاَبْصَارَ وَ هُوَ اللَّطِيْفُ الْخَبِيْرُ» [الأنعام: ۱۰۳] ، «وَ مَا كَانَ لِبَشَرٍ اَنْ يُّكَلِّمَهُ اللّٰهُ اِلَّا وَحْيًا اَوْ مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ» [الشورٰي: ۵۱] وَ مَنْ حَدَّثَكَ أَنَّهُ يَعْلَمُ مَا فِيْ غَدٍ فَقَدْ كَذَبَ ثُمَّ قَرَأَتْ: «وَ مَا تَدْرِيْ نَفْسٌۢ بِاَيِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ» [لقمان: ۳۴] وَمَنْ حَدَّثَكَ أَنَّهُ كَتَمَ فَقَدْ كَذَبَ، ثُمَّ قَرَأَتْ: «يٰۤاَيُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ»[المائدة: ۶۷] ، وَ لٰكِنَّهُ رَأٰی جِبْرِيْلَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ فِيْ صُوْرَتِهِ مَرَّتَيْنِ ][ بخاري، التفسیر، باب: ۴۸۵۵۔ مسلم: ۱۷۷ ]”جو شخص تمھیں بیان کرے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے تو اس نے یقینا جھوٹ کہا، پھر ام المومنین رضی اللہ عنھا نے یہ آیت پڑھی: «لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ وَ هُوَ يُدْرِكُ الْاَبْصَارَ وَ هُوَ اللَّطِيْفُ الْخَبِيْرُ» [ الأنعام: ۱۰۳ ]”اسے نگاہیں نہیں پاتیں اور وہ سب نگاہوں کو پاتا ہے اور وہی نہایت باریک بین، سب خبر رکھنے والا ہے۔“ اور یہ آیت: «وَ مَا كَانَ لِبَشَرٍ اَنْ يُّكَلِّمَهُ اللّٰهُ اِلَّا وَحْيًا اَوْ مِنْ وَّرَآئِ حِجَابٍ» [ الشورٰی: ۵۱ ]”اور کسی بشر کے لیے ممکن نہیں کہ اللہ اس سے کلام کرے مگر وحی کے ذریعے، یا پردے کے پیچھے سے۔“”اور جو شخص تمھیں بیان کرے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہ جانتے ہیں جو کل ہو گا تو اس نے یقینا جھوٹ کہا۔“ پھر انھوں نے یہ آیت پڑھی: «وَ مَا تَدْرِيْ نَفْسٌ مَّا ذَا تَكْسِبُ غَدًا» [ لقمان: ۳۴ ]”اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کمائی کرے گا۔“”اور جو شخص تمھیں بیان کرے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (وحی کی بات کو) چھپایا ہے، اس نے یقینا جھوٹ کہا۔“ پھر انھوں نے یہ آیت پڑھی: «اَيُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ»[ المائدۃ: ۶۷ ]”اے رسول! پہنچا دے جو کچھ تیری طرف تیرے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے۔“”لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل علیہ السلام کو ان کی اصل صورت میں دو مرتبہ دیکھا ہے۔“
رُبَيِّع بنت مُعوّذ رضی اللہ عنھما بیان کرتی ہیں: ”جس رات میری رخصتی ہوئی اس کی صبح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے اور میرے بستر پر بیٹھ گئے، جہاں تم بیٹھے ہو اور کچھ چھوٹی لڑکیاں دف بجا کر اپنے آباء کے متعلق شعر پڑھ رہی تھیں جو بدر میں شہید ہوئے، یہاں تک کہ ایک لڑکی نے کہا: [ وَفِيْنَا نَبِيٌّ يَعْلَمُ مَا فِيْ غَدٍ ]”اور ہم میں وہ نبی ہے جو کل ہونے والی بات جانتا ہے۔“ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ لاَ تَقُوْلِيْ هٰكَذَا، وَقُوْلِيْ مَا كُنْتِ تَقُوْلِيْنَ ]”اس طرح مت کہو اور وہ کہتی جاؤ جو کہہ رہی تھی۔“[ بخاري، المغازي، باب: ۴۰۰۱ ]
➎ وَ مَا تَدْرِيْ نَفْسٌۢ بِاَيِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ: یعنی کوئی انسان نہیں جانتا کہ اسے موت کہاں آئے گی، خشکی پر یا سمندر میں یا پہاڑ پر۔ جب اسے اپنی موت کی جگہ کا علم نہیں تو وقت کا علم کیسے ہو سکتا ہے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ إِذَا كَانَ أَجَلُ أَحَدِكُمْ بِأَرْضٍ أَوْثَبَتْهُ إِلَيْهَا الْحَاجَةُ، فَإِذَا بَلَغَ أَقْصٰی أَثَرِهِ، قَبَضَهُ اللّٰهُ سُبْحَانَهُ، فَتَقُوْلُ الأَرْضُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ رَبِّ! هٰذَا مَا اسْتَوْدَعْتَنِيْ ][ ابن ماجہ، الزھد، باب ذکر الموت والاستعداد: ۴۲۶۳، وقال البوصیري و الألباني صحیح ]”جب تم میں سے کسی شخص کی موت کسی زمین میں طے ہو، تو کوئی ضرورت اسے چھلانگ لگوا کر وہاں پہنچا دیتی ہے۔ پھر جب وہ اس جگہ پہنچتا ہے جہاں اس کے قدم کا آخری نشان ہوتا ہے، تو اللہ سبحانہ اسے قبض کر لیتے ہیں۔ چنانچہ زمین قیامت کے دن کہے گی: ”اے میرے رب! یہ ہے وہ امانت جو تو نے میرے پاس رکھی تھی۔“
➏ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ: یعنی اللہ تعالیٰ کا علم ان پانچ چیزوں کے ساتھ ہی خاص نہیں، بلکہ وہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے اور ان کے ظاہر و باطن کی پوری خبر رکھنے والا ہے۔