(آیت 27) ➊ وَ لَوْ اَنَّ مَا فِي الْاَرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ اَقْلَامٌ …: ” كَلِمٰتُ “”كَلِمَةٌ“ کی جمع ہے، جس کا معنی کلام ہے، جیسا کہ فرمایا: « اِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَآىِٕلُهَا »[ المؤمنون: ۱۰۰ ]”یہ تو ایک بات ہے جسے وہ کہنے والا ہے۔“ مراد اللہ تعالیٰ کے دوسرے کلام کے ساتھ ساتھ کلمہ ”كُنْ“ بھی ہے۔ یہ اس خیال کا رد ہے جو ذہن میں پیدا ہو سکتا ہے کہ بے شک اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کا مالک ہے اور وہ غنی ہے، مگر یہ سب کچھ ختم بھی تو ہو سکتا ہے اور جو غنی ہے وہ محتاج بھی تو ہو سکتا ہے۔ اس خیال کے رد میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں کبھی کمی نہیں ہو سکتی اور نہ وہ کبھی محتاج ہو سکتا ہے، کیونکہ وہ جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو وہ کلمہ ”کُنْ“ کہنے سے ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی وہ جو بات چاہے کر سکتا ہے اور کرتا ہے۔ جس طرح اس کی ذات کی نہ ابتدا ہے نہ انتہا، اسی طرح اس کے کلمات کی نہ ابتدا ہے نہ انتہا اور نہ ان کا شمار ہو سکتا ہے۔ پھر جو مالک ایک کلمہ ”كُنْ“ کہنے سے سارے عالم کو فنا کر سکتا ہے اور ایک ”كُنْ“ کہہ کر اس جیسے بلکہ اس سے کہیں بڑے اور اعلیٰ کروڑوں جہاں پیدا کر سکتا ہے اور جس کے کلمات کی کوئی انتہا نہیں اور نہ وہ کبھی ختم ہو سکتے ہیں، ایسے مالک کے ملک کو کبھی زوال ہو سکتا ہے؟ یا وہ کبھی محتاج ہو سکتا ہے؟ نہیں، وہ ہمیشہ سے غنی و حمید ہے اور عزیزو حکیم ہے اور ہمیشہ رہے گا۔
➋ مفسر ابن کثیر لکھتے ہیں: ”اللہ تعالیٰ اپنی عظمت، کبریائی، جلال، اپنے اسماء و صفاتِ حسنیٰ اور اپنے کامل کلمات کے متعلق بتاتے ہوئے فرماتے ہیں، جن کا نہ کوئی احاطہ کر سکتا ہے اور نہ کسی بشر کو ان کی حقیقت اور شمار کا علم ہے، جیسا کہ سیدالبشر اور خاتم الرسل صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ لَا أُحْصِيْ ثَنَاءً عَلَيْكَ، أَنْتَ كَمَا أَثْنَيْتَ عَلٰی نَفْسِكَ ][ مسلم، الصلاۃ، باب ما یقال في الرکوع و السجود؟: ۴۸۶ ]”میں تیری ثنا کا شمار نہیں کر سکتا، تو اسی طرح ہے جیسے تو نے خود اپنی ثنا کی ہے۔“ چنانچہ فرمایا: « وَ لَوْ اَنَّ مَا فِي الْاَرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ اَقْلَامٌ … » یعنی اگر زمین کے تمام درخت قلم بنا دیے جائیں اور سمندر کو سیاہی بنا دیا جائے اور اس کے ساتھ سات سمندر مزید بڑھا دیے جائیں اور ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے کلمات لکھے جائیں، جو اس کی عظمت، جلال اور اس کی صفات پر دلالت کرتے ہیں، تو قلم ٹوٹ جائیں گے، سمندروں کا پانی ختم ہو جائے گا، خواہ ان جیسے جتنے بھی اور لے آئیں۔ ”سات سمندروں“ کا ذکر صرف مبالغہ کے لیے ہے، اس سے حصر مراد نہیں، نہ ہی یہ بات ہے کہ کوئی سات سمندر موجود ہیں جو عالم کو گھیرے ہوئے ہیں، جیسا کہ بعض لوگوں نے کہا ہے جو اسرائیلیات بیان کرتے ہیں، جن کی تصدیق یا تکذیب نہیں ہو سکتی، بلکہ حقیقت وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے دوسری آیت میں بیان فرمایا: « قُلْ لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّكَلِمٰتِ رَبِّيْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنْفَدَ كَلِمٰتُ رَبِّيْ وَ لَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهٖ مَدَدًا »[ الکہف: ۱۰۹ ]”کہہ دے اگر سمندر میرے رب کی باتوں کے لیے سیاہی بن جائے تو یقینا سمندر ختم ہوجائے گا اس سے پہلے کہ میرے رب کی باتیں ختم ہوں، اگرچہ ہم اس کے برابر اور سیاہی لے آئیں۔“ چنانچہ اس کی مثل سے مراد اس جیسا ایک اور سمندر نہیں بلکہ اس جیسا، پھر اس جیسا، پھر اس جیسا، اس طرح آگے بڑھاتے جاؤ۔ جتنے بھی سمندر لے آئیں اللہ کے کلمات ختم نہ ہوں گے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی آیات اور اس کے کلمات کا شمار نہیں ہو سکتا۔ حسن بصری نے فرمایا: ”اگر زمین کے تمام درخت قلم بنا دیے جائیں اور سمندر سیاہی ہو جائے اور اللہ تعالیٰ فرمائے کہ ”میرا یہ حکم ہے اور میرا یہ حکم ہے“ تو سمندر کا پانی ختم ہو جائے گا اور قلم ٹوٹ جائیں گے۔“(ابن کثیر)
➌ اِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ: یعنی اللہ تعالیٰ ہر چیز پر غالب اور زبردست ہے، وہ جو ارادہ کرے کوئی نہ اسے روک سکتا ہے، نہ اس سے باز پرس کر سکتا ہے، اور وہ کمال حکمت والا ہے، اس کا غلبہ اندھے کی لاٹھی نہیں، بلکہ اس کا ہر کام سراسر حکمت پر مبنی ہے۔