(آیت 17) ➊ يٰبُنَيَّ اَقِمِ الصَّلٰوةَ وَ اْمُرْ بِالْمَعْرُوْفِ …: لقمان علیہ السلام نے بنیادی عقائد کی وصیت کے بعد بیٹے کو بنیادی احکام کی وصیت فرمائی۔ جن میں سب سے اول اور سب سے اہم نماز کی اقامت ہے، جس میں اس کو وقت پر صحیح طریقے اور خشوع و اطمینان کے ساتھ باجماعت ادا کرنا سب کچھ شامل ہے۔ دوسری چیز لوگوں کو نیکی کا حکم دینا اور تیسری چیز برائی سے منع کرنا ہے، کیونکہ سب لوگ دنیا میں آخرت کے سفر پر ہیں۔ اگر کوئی شخص ساتھیوں کا خیال نہیں رکھے گا اور انھیں ساتھ لے کر چلنے کی کوشش نہیں کرے گا تو وہ اسے بھی لے بیٹھیں گے اور وہ منزل پر پہنچنے سے محروم رہے گا۔ اسی طرح اس سفر میں سب لوگ ایک جہاز پر سوار ہیں، اگر اس میں سوراخ کرنے والوں کو روکا نہیں جائے گا تو جہاز کے ڈوبنے کے ساتھ سب ڈوب جائیں گے۔ واضح رہے کہ نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا دو الگ الگ حکم ہیں اور دونوں پر عمل ضروری ہے۔ جس کا بلند ترین درجہ جہاد فی سبیل اللہ ہے، جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کے کوہان کی چوٹی قرار دیا ہے۔
➋ اقامتِ صلاۃ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے حکم میں ان تینوں کا علم حاصل کرنا خود بخود شامل ہے، کیونکہ یہ مسلّم قاعدہ ہے: ”مَا لَا يَتِمُّ الْوَاجِبُ إِلَّا بِهِ فَهُوَ وَاجِبٌ“”جن چیزوں کے بغیر واجب پوری طرح ادا نہیں ہوتا وہ بھی واجب ہیں۔“ معروف و منکر کے صحیح علم کے بغیر امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکرتے ہوئے عین ممکن ہے کہ کوئی شخص کتاب و سنت اور معروف کی دعوت کے بجائے شرک و بدعت اور خرافات و منکرات کی اشاعت کرتا پھرے، جیسا کہ آج کل بہت سے لوگوں کا یہی حال ہے۔ اس طرح امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لیے دعوت کا اسلوب، اس کے لیے ضروری حکمت، موعظہ حسنہ، نرمی اور برداشت سیکھنا اور اختیار کرنا بھی لازم ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ برائی کو روکنے کے لیے جہاد فی سبیل اللہ کی تیاری اور اس کے لیے مطلوب قوت، گھوڑے اور سواریاں تیار رکھنا بھی لازم ہے۔ غرض لقمان علیہ السلام کی اس نصیحت میں اگرچہ نمایاں طور پر نماز کا ذکر آیا ہے، کیونکہ ایمان کے بعد وہ سب سے اہم فریضہ ہے، مگر معروف اور منکر کے ضمن میں پورا اسلام، اس کا علم حاصل کرنا اور اسے آگے پہنچانا سب کچھ آگیا ہے۔
➌ وَ اصْبِرْ عَلٰى مَاۤ اَصَابَكَ: اگرچہ معروف کے ضمن میں اس کا ذکر آ چکا ہے، تاہم اس کی اہمیت کے پیش نظر اسے الگ بھی ذکر فرمایا۔ اس میں دو چیزیں شامل ہیں، پہلی یہ کہ اقامت صلاۃ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فرائض کی ادائیگی میں پیش آنے والی ہر مصیبت پر صبر کرنا۔ اس میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ جو شخص بھی یہ کام کرے گا اس پر مصیبتوں نے آنا ہی آنا ہے۔ جنّ و انس کے شیاطین ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے پڑ جائیں گے اور اسے ہر قسم کی اذیتوں سے سابقہ پیش آئے گا۔ سو اس پر لازم ہے کہ صبر سے کام لے۔ دوسری چیز یہ کہ دنیا کی زندگی آزمائشوں اور مصیبتوں سے بھری ہوئی ہے، راحت اور آرام صرف جنت میں حاصل ہو گا۔ اس لیے مومن پر لازم ہے کہ اس قید خانے کی ہر تکلیف اور آزمائش پر صبر کرے اور اپنے رب کا شکوہ کرنے کے بجائے اس پر راضی رہے۔
➍ اِنَّ ذٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ: ” عَزْمِ “ مصدر بمعنی اسم مفعول ہے، جو اپنے موصوف کی طرف مضاف ہے: ” أَيْ الْأُمُوْرُ الْمَعْزُوْمَةُ“ اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں، ایک یہ کہ ” عَزْمِ “ کا معنی ”واجب کرنا“ ہے، یعنی یہ چاروں ایسے کاموں میں سے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے واجب اور فرض کیے گئے ہیں، جیسا کہ حدیث میں ہے: [ إِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ أَنْ تُؤْتَی رُخَصُهُ، كَمَا يُحِبُّ أَنْ تُؤْتَی عَزَائِمُهُ ][ صحیح ابن حبان: ۳۵۴، عن ابن عباس رضی اللہ عنھما و صححہ شعیب الأرنؤوط ]”اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے کہ اس کی رخصتوں پر عمل کیا جائے، جس طرح وہ پسند کرتا ہے کہ اس کے فرائض پر عمل کیا جائے۔“ اشرف الحواشی میں ہے: ”دوسرا مطلب اس کا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کا یہ کام بڑے عزم و ہمت کا کام ہے، کم ہمت لوگوں کے بس میں نہیں کہ اس کی سختیاں جھیل سکیں۔ اس لیے اپنے اندر عزم و ہمت پیدا کر۔“