(آیت 13) ➊ وَ اِذْ قَالَ لُقْمٰنُ لِابْنِهٖ وَ هُوَ يَعِظُهٗ …: ”وَعَظَ“ کا معنی کسی چیز سے روکنا ہے، جس میں ترغیب کے ساتھ ڈرانا بھی ہو، جیسا کہ اللہ نے نوح علیہ السلام کو بیٹے کے لیے سفارش پر فرمایا: « فَلَا تَسْـَٔلْنِ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ اِنِّيْۤ اَعِظُكَ اَنْ تَكُوْنَ مِنَ الْجٰهِلِيْنَ »[ ھود: ۴۶ ]”پس مجھ سے اس بات کا سوال نہ کر جس کا تجھے کچھ علم نہیں۔ بے شک میں تجھے اس سے نصیحت کرتا ہوں کہ تو جاہلوں میں سے ہو جائے۔“ اور جیسا کہ فرمایا: « فَاَعْرِضْ عَنْهُمْ وَ عِظْهُمْ وَ قُلْ لَّهُمْ فِيْۤ اَنْفُسِهِمْ قَوْلًۢا بَلِيْغًا »[ النساء: ۶۳ ]”سو تو ان سے دھیان ہٹا لے اور انھیں نصیحت کر اور ان سے ایسی بات کہہ جو ان کے دلوں میں بہت اثر کرنے والی ہو۔“
➋ يٰبُنَيَّ:”اِبْنٌ“ اصل میں ”بَنْوٌ“ ہے، اس کی تصغیر ” بُنَيْوٌ“ ہے۔ یائے متکلم کی طرف مضاف کرنے سے ”بُنَيْوِيَ“ ہو گیا۔ واؤ کو یاء کرنے سے ”بُنَيْيِيَ“ ہو گیا۔ پھر ایک یاء حذف کرنے اور ادغام سے ”بُنَيَّ“ ہو گیا۔ معنی اس کا ہے ”اے میرے چھوٹے بیٹے۔“ چھوٹے سے مراد پیارا ہے۔ بیٹے پر شفقت اور محبت کے اظہار کے لیے تصغیر اور یائے متکلم کی طرف مضاف کر کے مخاطب فرمایا۔
➌ اس سے معلوم ہوا کہ وعظ کرتے وقت مخاطب کو نہایت محبت اور شفقت بھرے الفاظ کے ساتھ خطاب کرنا چاہیے، جیسا کہ لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو ” يٰبُنَيَّ “ کہہ کر اور ابراہیم علیہ السلام نے اپنے والد کو ” يٰۤاَبَتِ “ کہہ کر مخاطب فرمایا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو طالب کو ”يَا عَمِّ! قُلْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ“ کہہ کر وعظ فرمایا۔ بلکہ عام گفتگو میں بھی اس ادب کو ملحوظ رکھنا چاہیے، جیسا کہ یوسف علیہ السلام نے والد کو ” يٰۤاَبَتِ اِنِّيْ رَاَيْتُ اَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا “ اور والد نے انھیں ” يٰبُنَيَّ لَا تَقْصُصْ رُءْيَاكَ عَلٰۤى اِخْوَتِكَ “ کے ساتھ مخاطب کیا۔
➍ لَا تُشْرِكْ بِاللّٰهِ: حکمت عطا ہونے کے بعد یہ پہلی نصیحت ہے جو لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو کی اور یہی وہ اصل الاصول ہے جس کی وحی اللہ تعالیٰ نے اپنے ہر رسول کو فرمائی، فرمایا: « وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْۤ اِلَيْهِ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ »[ الأنبیاء: ۲۵ ]”اور ہم نے تجھ سے پہلے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس کی طرف یہ وحی کرتے تھے کہ حقیقت یہ ہے کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں، سو میری عبادت کرو۔“ اس سے معلوم ہوا کہ ہر والد کے لیے ضروری ہے کہ وہ سب سے پہلے اپنی اولاد کو شرک سے بچانے کی کوشش کرے۔ اس کوشش میں وعظ کے ساتھ ان کے لیے اللہ سے دعا بھی شامل ہے، جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام نے جب اسماعیل علیہ السلام اور ان کی والدہ کو وادی غیر ذی زرع میں چھوڑا، تو ان کے نگاہوں سے اوجھل ہونے پر اللہ تعالیٰ سے دعا کی: « وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰهِيْمُ رَبِّ اجْعَلْ هٰذَا الْبَلَدَ اٰمِنًا وَّ اجْنُبْنِيْ وَ بَنِيَّ اَنْ نَّعْبُدَ الْاَصْنَامَ »[ إبراہیم: ۳۵ ]”اور جب ابراہیم نے کہا اے میرے رب! اس شہر کو امن والا بنادے اور مجھے اور میرے بیٹوں کو بچا کہ ہم بتوں کی عبادت کریں۔“
➎ اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيْمٌ: ” اِنَّ “ کا لفظ تعلیل کے لیے آتا ہے، یعنی اس کے ساتھ پہلی بات کی علت بیان کی جاتی ہے، فرمایا: ”اللہ کے ساتھ شرک مت کر، کیونکہ شرک بہت بڑا ظلم ہے۔“ ظلم کا معنی ہے ”وَضْعُ الشَّيْءِ فِيْ غَيْرِ مَحَلِّهِ“ کسی چیز کو اس کی جگہ کے بجائے دوسری جگہ رکھ دینا، کسی کا حق دوسرے کو دے دینا۔ کیونکہ ظلم کا اصل معنی اندھیرا ہے اور اندھیرے میں آدمی کسی چیز کو اس کی اصل جگہ نہیں رکھ سکتا۔ موحّد آدمی اپنی پوری زندگی توحید کی روشنی میں بصیرت کے ساتھ گزارتا ہے، جیسا کہ فرمایا: « قُلْ هٰذِهٖ سَبِيْلِيْۤ اَدْعُوْۤا اِلَى اللّٰهِ عَلٰى بَصِيْرَةٍ اَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِيْ »[ یوسف: ۱۰۸ ]”کہہ دے یہی میرا راستہ ہے، میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں، پوری بصیرت پر، میں اور وہ بھی جنھوں نے میری پیروی کی ہے۔“ جب کہ مشرک ساری عمر شرک کی ظلمتوں میں بھٹکتا رہتا ہے، جیسا کہ فرمایا: « صُمٌّۢ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ »[ البقرۃ: ۱۷۱ ]”بہرے ہیں، گونگے ہیں، اندھے ہیں، پس وہ نہیں سمجھتے۔“ شرک بہت بڑا ظلم اس لیے ہے کہ اس سے بڑھ کر بے انصافی ہو نہیں سکتی کہ بے بس اور عاجز مخلوق کو خالق و مالک اور مختار رب تعالیٰ کے اختیارات کا مالک بنا دیا جائے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی حق تلفی ہے اور آدمی کا اپنی جان پر بھی بہت بڑا ظلم کہ وہ اپنے آپ کو توحید کے بلند آسمان سے گرا کر شرک کی پستی میں گرا دے اور ہمیشہ کی نعمتوں والی جنت کے بجائے ابد الآباد جہنم کے عذاب کا سزاوار ٹھہرے۔ دیکھیے سورۂ حج (۳۱) اور مائدہ (۷۲) مزید دیکھیے سورۂ انعام کی آیت (۸۲): « اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ لَمْ يَلْبِسُوْۤا اِيْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ » کی تفسیر۔