(آیت 11)هٰذَا خَلْقُ اللّٰهِ فَاَرُوْنِيْ مَا ذَا خَلَقَ الَّذِيْنَ مِنْ دُوْنِهٖ …: یعنی یہ ستونوں کے بغیر بلند آسمان، زمین میں گڑے ہوئے پہاڑ اور اس میں پھیلے ہوئے جانور، آسمان سے اترنے والا پانی اور اس کے ساتھ زمین سے پیدا ہونے والی ہر عمدہ اور نفیس قسم کی چیز، یہ سب کچھ تو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا ہے۔ اب مجھے دکھاؤ کہ وہ کون سی چیز ہے جو اس کے سوا کسی اور نے پیدا فرمائی ہے؟ ظاہر ہے ایک بھی نہیں۔ تو پھر مشرکین اس کے سوا کسی اور کی عبادت کیوں کرتے ہیں، کیا ان کے پاس کوئی دلیل ہے؟ فرمایا نہیں، بلکہ اصل یہ ہے کہ مشرک ظالم ہیں اور ظالم بھی ایسے جو واضح گمراہی میں مبتلا ہیں، شرک کی ظلمت اور اندھیرے میں انھیں سیدھا راستہ سوجھتا ہی نہیں، اس لیے وہ اس راستے پر چل رہے ہیں جو واضح طور پر غلط اور گمراہی کا راستہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بار بار اس بات کو اپنی توحید کی دلیل کے طور پر بیان فرمایا ہے کہ پیدا کرنے والا صرف وہ ہے، تو پھر عبادت کسی اور کی کیوں ہو؟ دیکھیے سورۂ بقرہ (۲۱، ۲۲)، رعد (۱۶)، نحل (۱۷ تا ۲۱)، حج (۷۳، ۷۴)، فاطر (۴۰) اور احقاف (۴، ۵)۔