(آیت 52) ➊ فَاِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰى …: اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی کہ خوش گوار ہواؤں، بارش، بحری جہازوں اور توحیدِ الٰہی پر دلالت کرنے والی دوسری بے شمار نشانیوں کے باوجود اگر یہ لوگ ایمان نہ لائیں تو آپ غم زدہ نہ ہوں، کیونکہ آپ زندوں کو سنا سکتے ہیں مردوں کو نہیں اور کان والوں کو سنا سکتے ہیں بہروں کو نہیں، جب کہ کفر و عناد پر اڑے ہوئے یہ لوگ زندہ نہیں حقیقت میں مردہ ہیں اور کان رکھنے والے نہیں بلکہ ایسے بہرے ہیں جو پیٹھ دے کر جا رہے ہوں، جنھیں کسی صورت بات پہنچائی جا ہی نہ سکتی ہو، کیونکہ اگر وہ دیکھ رہے ہوتے تو شاید دیکھ کر ہی سمجھ جاتے، مگر جب وہ سماعت سے محروم بھی ہیں اور پیٹھ دے کر بھی جارہے ہیں تو آپ ان کو کیسے سنائیں گے!؟
➋ اللہ تعالیٰ کے کلام کی بلندی اور بلاغت کو تو کسی کا کلام چُھو بھی نہیں سکتا، مگر انسانی حد تک ایک شاعر نے یہ مفہوم اچھا ادا کیا ہے۔
لَقَدْ أَسْمَعْتَ لَوْ أَسْمَعْتَ حَيًّا
وَ لٰكِنْ لَا حَيَاةَ لِمَنْ تُنَادِيْ
وَ لَوْ نَارًا نَفَخْتَ بِهَا أَضَاءَتْ
وَ لٰكِنْ أَنْتَ تَنْفُخُ فِي الرَّمَادِ
”تم نے اپنی بات یقینا سنا دی اگر تو کسی زندہ کو آواز دیتا، مگر جسے تو آواز دے رہا ہے اس میں زندگی ہی نہیں۔ اور اگر کوئی معمولی سی آگ بھی ہوتی جس میں تو پھونک مارتا تو وہ روشن ہو جاتی، مگر تو تو راکھ میں پھونکیں مار رہا ہے۔“
➌ اس میں شک نہیں کہ اس آیت میں مُردوں اور بہروں سے مراد ایمان نہ لانے والے کافر ہیں، مگر یہ آیت اس بات کی واضح دلیل ہے کہ فوت شدہ مردے زندہ لوگوں کی بات نہیں سنتے، کیونکہ اگر مردے سنتے ہوں تو ایمان نہ لانے والوں کو مردوں کے ساتھ تشبیہ کس چیز میں دی جا رہی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ مردے نہیں سنتے اور یہ آیت اس بات کی واضح دلیل ہے۔ ہاں وہ دو مواقع اس سے مستثنیٰ ہیں جو صحیح احادیث سے ثابت ہیں، ایک بدر میں کفار کے مقتولین سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خطاب جو انھیں کنویں میں پھینکنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا (دیکھیے بخاری: ۳۹۷۶) اور دوسرا میت کا قبر میں دفن کیے جانے کے بعد واپس جانے والوں کے جوتوں کی آواز سننا۔ (دیکھیے بخاری: ۱۳۳۸)