(آیت 48)اَللّٰهُ الَّذِيْ يُرْسِلُ الرِّيٰحَ فَتُثِيْرُ سَحَابًا …: عبدالرحمان کیلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ”اس ایک آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی کئی نشانیاں ذکر فرما دیں، مثلاً ہوا جو ایک کنکر کا بوجھ بھی برداشت نہیں کر سکتی اور کنکر زمین پر آپڑتا ہے، مگر یہ ہوا آبی بخارات کو ایک کاغذ کے پرزے کی طرح اپنے کندھے پر اٹھائے پھرتی ہے۔ وہ آبی بخارات جن میں کروڑوں ٹن پانی موجود ہوتا ہے اور اس وزن کا اندازہ زمین کے اس رقبے سے لگایا جا سکتا ہے جس میں یہ بارش ہوئی اور جتنے انچ بارش ہوئی۔ دوسری یہ کہ ان باربردار ہواؤں کا رخ طبیعی طور پر متعین نہیں ہوتا (کہ لازماً فلاں جانب ہی چلیں گی) بلکہ اللہ تعالیٰ جس طرف خود چاہے اسی طرف ہی موڑ دیتا ہے۔ اس لیے جہاں چاہتا ہے وہیں بارش ہوتی ہے، دوسرے علاقے میں نہیں ہوتی (اور جتنی چاہتا ہے ہوتی ہے، زیادہ نہیں ہوتی)۔ تیسری یہ کہ جب یہ بادل کسی ایسے ٹھنڈے فضائی علاقے میں پہنچتے ہیں جو آبی بخارات کو پھر سے پانی میں منتقل کر سکیں تو وہاں بھی بادلوں کا سارا پانی یک لخت پانی بن کر زمین پر نہیں گرپڑتا بلکہ قطرہ قطرہ بن کر گرتا ہے، حتیٰ کہ اگر ٹھنڈک زیادہ ہو تو بھی وہ قطرے ہی اولے بن کر گرتے ہیں، یہ نہیں ہوتا کہ زیادہ سردی کی وجہ سے سارا پانی برف بن کر یک لخت گر پڑے اور اس میں اللہ تعالیٰ کی بہت سی حکمتیں ہیں۔
بارش سے پہلے زمین کا یہ حال تھا کہ دھول اڑتی پھرتی تھی، درختوں کے پتوں پر گرد و غبار پڑا تھا۔ بارش ہوتی ہے تو درخت دھل جاتے ہیں اور زمین لہلہانے لگتی ہے، گویا اسے نئی زندگی مل گئی، پھر کئی قسم کے جان دار بھی بارش میں پیدا ہو کر بولنے اور چلنے پھرنے لگتے ہیں۔ ایک بہار آ جاتی ہے جس سے دل مسرور ہوجاتے ہیں اور ساتھ ہی تمام مخلوق کی روزی کا سامان بھی میسر آنے لگتا ہے اور انسان جو برسات سے بیشتر مایوسی کا شکار ہو رہا تھا پھر سے خوش ہوکر پھولنے اور اِترانے لگتا ہے۔“