(آیت 37) ➊ اَوَ لَمْ يَرَوْا اَنَّ اللّٰهَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَآءُ وَ يَقْدِرُ: یعنی خوش حالی پر پھول جانے یا مصیبت پر ناامید ہونے کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ انسان خوش حالی یا مصیبت کے معاملے کو دائمی سمجھ لیتا ہے۔ ایسے لوگوں کو ہر روز پیش آنے والے مشاہدے کی طرف توجہ دلائی کہ کیا انھوں نے دیکھا نہیں کہ اللہ تعالیٰ جس کے لیے چاہتا ہے رزق فراخ کر دیتا ہے اور تنگ کر دیتا ہے۔ ایک ہی شخص کا رزق کبھی فراخ ہے کبھی تنگ اور ایک ہی وقت میں کسی کا رزق فراخ ہے اور کسی کا تنگ۔ رزق کا معاملہ اس نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے۔ بعض اوقات بڑے بڑے عقل مند اور عالم غربت کا شکار ہوتے ہیں اور اَن پڑھوں اور بے وقوفوں کو ایسی روزی دیتا ہے کہ پڑھے لکھے اور دانا حیران ہوتے ہیں۔ یہ اللہ کی قدرت اور اس کی حکمت ہے جسے وہی جانتا ہے، کسی کو دم مارنے کی مجال نہیں۔ مومن نہ خوش حالی کو دائمی یا اپنی محنت کا نتیجہ سمجھتا ہے کہ پھول جائے اور نہ ہی مصیبت کو دائمی سمجھتا ہے کہ نا امید ہو جائے، بلکہ وہ ہر وقت خوف و رجا اور امید و بیم کے درمیان کی حالت میں رہتا ہے۔ جو اسے فخرو غرور سے بھی باز رکھتی ہے اور یاس و نا امیدی سے بھی۔
➋ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ: یعنی ایک ہی شخص کو کسی وقت غنی اور کسی وقت فقیر کر دینے میں بہت سی نشانیاں ہیں اور ایک ہی وقت میں کسی کو غنی اور کسی کو فقیر کر دینے میں بہت سی نشانیاں ہیں۔ اسی طرح اس بات میں بھی بہت سی نشانیاں ہیں کہ کافر ہر لمحے دنیا کے قانون تغیر کا مشاہدہ کر رہے ہیں اور آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ کوئی شخص ہمیشہ ایک حال پر نہیں رہتا، نہ سب لوگ ایک حال پر ہیں، رزق اللہ تعالیٰ کی مشیت کے مطابق پھیلتا اور سکڑتا رہتا ہے، اس کے باوجود وہ اس طرح خوشی پر مغرور اور مصیبت میں ناامید ہوتے ہیں جیسے یہ حالت ہمیشہ ہی رہے گی۔ ان تمام چیزوں میں ایمان والوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں، کیونکہ ان سے فائدہ وہی اٹھاتے ہیں۔ کفار نہ ان پر غور کرتے ہیں، نہ انھیں ان سے کوئی فائدہ حاصل ہوتا ہے۔