تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 28) ضَرَبَ لَكُمْ مَّثَلًا مِّنْ اَنْفُسِكُمْ …: یہاں تک توحید اور آخرت کا بیان ملا جلا آ رہا تھا، اب خالص توحید پر کلام شروع ہو رہا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے شرک کے باطل ہونے کی مثال خود تمھاری ذات سے بیان فرمائی، تاکہ تمھیں کہیں دور نہ جانا پڑے۔ اپنے بارے میں یہی غور کر لو کہ تمھارے غلام جو تمھاری ملکیت میں ہیں، کیا ان میں سے کوئی بھی اس رزق میں تمھارا شریک ہے جو ہم نے تمھیں عطا کیا ہے کہ وہ اور تم اس کے مالک ہونے میں برابر ہو جاؤ اور اپنے اس غلام سے اسی طرح ڈرو جیسے تم آزاد لوگ ایک دوسرے سے ڈرتے ہو؟ جواب ظاہر ہے کہ ہر گز نہیں، غلام آقاکے اور مملوک مالک کے برابر کبھی نہیں ہو سکتا۔ تو پھر جب تم مانتے ہو کہ آسمان و زمین اور ان میں موجود ہر مخلوق، فرشتے، انسان، جنّ، انبیاء، اولیاء اور صلحاء، حجر، شجر اور بت وغیرہ سب کا مالک اللہ ہے اور وہ سب اللہ کی ملکیت ہیں اور تم خود اپنے غلاموں کو (جو انسان ہونے میں تمھارے برابر ہیں) اپنے اختیارات دے کر اپنے شریک اور اپنے برابر بنانے کے لیے تیار نہیں تو تم نے مخلوق کو خالق کا اور مملوک کو مالک کا شریک کیسے بنا لیا جو اللہ تعالیٰ کے کسی بھی طرح برابر نہیں؟ اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے لیے یہ مثال اس لیے بیان فرمائی کہ وہ اپنے بنائے ہوئے معبودوں کو بھی اللہ ہی کی ملکیت مانتے تھے۔ ابن عباس رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ مشرکین کہتے تھے: [ لَبَّيْكَ لَا شَرِيْكَ لَكَ ] حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: [ وَيْلَكُمْ، قَدْ قَدْ ] تم پر افسوس! بس کرو، بس کرو۔ مگر وہ کہتے: [ إِلاَّ شَرِيْكًا هُوَ لَكَ، تَمْلِكُهُ وَ مَا مَلَكَ ] [ مسلم، الحج، باب التلبیۃ و صفتھا …: ۱۱۸۵ ] مگر تیرا ایک شریک ہے جس کا مالک تو ہے اور ان چیزوں کا بھی جن کا وہ مالک ہے۔

كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ: یعنی ہم ایسے ہی مثالوں کے ساتھ اور خوب کھول کھول کر آیات بیان کرتے ہیں، ان لوگوں کے لیے جو سمجھتے ہیں۔



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.