(آیت 17) ➊ فَسُبْحٰنَ اللّٰهِ: ”سُبْحَانَ اللّٰهِ“ فعل محذوف ”سَبِّحُوْا“ کا مفعول مطلق ہے۔ ”پس تم اللہ کی تسبیح کرو“میں ”پس“ کا مطلب یہ ہے کہ جب تم جان چکے کہ ایمان اور عمل صالح والوں کا حال کیا ہوگا اور اللہ کی آیات کا انکار اور ان تکذیب کرنے والوں کا انجام کیا ہو گا، تو تم پر لازم ہے کہ جنت کے عالی شان باغوں میں جانے کے لیے اور عذابِ الٰہی سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرو۔ اسے ہر شریک، ہر عیب اور ہر کمزوری سے پاک مانو۔ مشرکین و کفار اللہ کے شریک بنا رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کو قیامت قائم کرنے سے عاجز قرار دے رہے ہیں، تم ان سب باتوں سے اللہ تعالیٰ کے پاک ہونے کا اعلان کرو اور اس کی تسبیح کرو۔
➋ حِيْنَ تُمْسُوْنَ وَ حِيْنَ تُصْبِحُوْنَ …: زبان اور عمل کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی تسبیح کے اظہار اور اعلان کی بہترین اور جامع صورت نماز ہے۔ اس لیے مفسرین نے یہاں تسبیح سے مراد نماز لی ہے اور یہاں اس کا واضح قرینہ بھی موجود ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح تو دن رات کے ہر لمحے میں ہوسکتی ہے اور ہونی چاہیے، اس کے لیے اوقات مقرر کرنے کا مطلب یہی ہے کہ یہاں تسبیح کی خاص صورت کا حکم دیا جا رہا ہے، جو نماز پنج گانہ ہے۔ چنانچہ ” حِيْنَ تُمْسُوْنَ “(جب تم شام کرتے ہو) سے مغرب اور عشاء مراد ہیں، ” حِيْنَ تُصْبِحُوْنَ “(جب تم صبح کرتے ہو) سے صبح کی نماز مراد ہے، ” عَشِيًّا “(پچھلے پہر) سے عصر کی نماز اور ” حِيْنَ تُظْهِرُوْنَ “(جب تم ظہر کے وقت میں داخل ہوتے ہو) سے مراد ظہر کی نماز ہے۔ یاد رہے نمازوں کے یہ اوقات اجمالاً بیان ہوئے ہیں، ان کے اول و آخر کی تعیین اور نمازوں کی ادائیگی کا طریقہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں بیان ہوا ہے، جس کے بغیر قرآن مجید کے حکم پر عمل ممکن ہی نہیں۔ قرآن مجید میں نمازوں کے اوقات کے بیان کے لیے سورۂ بنی اسرائیل (۷۸)، ہود (۱۱۴) اور طٰہٰ (۱۳۰) کی تفسیر پر بھی ایک نگاہ ڈال لیں۔