تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 69) وَ الَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا: کفار کا انجام بیان کرنے کے بعد اپنے مومن بندوں کے لیے بشارت بیان فرمائی۔ سورت کا آغاز اہل ایمان کی آزمائش اور جہاد کے ذکر سے ہوا تھا، فرمایا: « وَ مَنْ جَاهَدَ فَاِنَّمَا يُجَاهِدُ لِنَفْسِهٖ » [ العنکبوت: ۶ ] اب اختتام بھی اسی جہاد پر بشارت کے ساتھ ہوتا ہے۔ وَ الَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا میں جہاد سے وہی جہاد مراد ہے جو سورت کے شروع میں وَ مَنْ جَاهَدَ فَاِنَّمَا يُجَاهِدُ لِنَفْسِهٖ سے مراد ہے۔ اس لیے اس پہلی آیت کا فائدہ دوبارہ نقل کیا جاتا ہے۔ جَهَدَ يَجْهَدُ کا معنی کوشش کرنا ہے اور جَاهَدَ (مفاعلہ) میں مقابلے کا مفہوم بھی ہے اور مبالغے کا بھی، یعنی کسی کے مقابلے میں پوری کوشش لگا دینا۔ مومن کو اللہ تعالیٰ کے احکام پر کاربند رہنے کے لیے بہت سی چیزوں کے مقابلے میں جدوجہد کرنا پڑتی ہے، اسے اپنے نفس کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے جو ہر وقت اسے اپنی خواہش کا غلام بنانے کے لیے زور لگاتا رہتا ہے، شیطان کا بھی جس نے اس کی دشمنی کی قسم کھا رکھی ہے اور اپنے گھر سے لے کر تمام دنیا کے ان انسانوں کا بھی جو اسے راہ حق سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں، حتیٰ کہ اسے اس کوشش میں لڑائی بھی کرنا پڑتی ہے، جس میں وہ دشمن کو قتل کرتا ہے اور خود بھی قتل ہو جاتا ہے۔ قرآن و حدیث میں جہاد کا لفظ اکثر اسی معنی میں آیا ہے۔ سب سے اونچا درجہ اس کا وہ ہے جب وہ سب کچھ اللہ کی راہ میں لٹا کر قربان ہو جاتا ہے۔ عبد اللہ بن حُبْشی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں (لمبی حدیث ہے): [ قِيْلَ فَأَيُّ الْجِهَادِ أَفْضَلُ؟ قَالَ مَنْ جَاهَدَ الْمُشْرِكِيْنَ بِمَالِهِ، وَنَفْسِهِ، قِيْلَ فَأَيُّ الْقَتْلِ أَشْرَفُ؟ قَالَ مَنْ أُهْرِيْقَ دَمُهُ، وَعُقِرَ جَوَادُهُ ] [ مسند أحمد: 411/3، ۴۱۲، ح: ۱۵۴۰۷، قال المحقق إسنادہ قوي۔ أبوداوٗد: ۱۴۴۹، قال الألباني صحیح ] (نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے) سوال کیا گیا کہ کون سا جہاد افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو مشرکین کے ساتھ اپنی جان اور مال کے ساتھ جہاد کرے۔ پوچھا گیا: پھر کون سا قتل سب سے اونچی شان والا ہے؟ فرمایا: جس کا خون بہا دیا جائے اور اس کا عمدہ گھوڑا کاٹ دیا جائے۔

➋ یعنی اللہ پر جھوٹ گھڑنے اور حق کو جھٹلانے والوں کا انجام تو جہنم ہے، مگر ہماری خاطر جو لوگ ایسے لوگوں کے ساتھ جہاد کریں گے اور ہماری راہ میں اپنے مال اور اپنی جانیں قربان کریں گے ہم ضرور ہی انھیں وہ راستہ دکھا دیں گے جن پر چل کر وہ ہم تک پہنچیں اور انھیں ان پر چلنے کی توفیق دیں گے اور ان پر ثابت قدم رکھیں گے، کیونکہ ہدایت کی تکمیل ان تینوں چیزوں کے ساتھ ہوتی ہے۔

وَ اِنَّ اللّٰهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِيْنَ: اِنَّ علت بیان کرنے کے لیے ہوتا ہے، یہاں ایک جملہ محذوف ہے جو خودبخود سمجھ میں آرہا ہے، وہ یہ ہے کہ جو شخص ہماری راہ میں جہاد کرے وہ محسن ہے، یعنی اپنی جان پر اور دوسرے لوگوں پر احسان کرنے والا ہے اور ایسے لوگ جو احسان کرنے والے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ہے۔

➍ اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے، اس کے باوجود وہ اپنی مخلوق کے ساتھ بھی ہے۔ پھر اس کی یہ معیت (ساتھ) ایک تو عام ہے کہ وہ اپنے علم وقدرت کے ساتھ یا جس طرح وہ خود بہتر جانتا ہے ہر بندے کے ساتھ ہے (دیکھیے حدید: ۴۔ مجادلہ: ۷) اور ایک خاص معیت ہے، جیسا کہ موسیٰ علیہ السلام نے فرعون اور اس کے لشکروں کے آنے پر کہا تھا: «‏‏‏‏ اِنَّ مَعِيَ رَبِّيْ سَيَهْدِيْنِ » [الشعراء: ۶۲ ] بے شک میرے ساتھ میرا رب ہے، وہ مجھے ضرور راستہ بتائے گا۔ اور جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمنوں کے آ پہنچنے پر اپنے غار کے ساتھی سے فرمایا تھا: « لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا » [ التوبۃ: ۴۰ ] غم نہ کر، بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ الْمُحْسِنِيْنَ کے ساتھ ہونے سے مراد یہی خاص معیت ہے، یعنی اللہ اپنی ہدایت، حفاظت، حمایت اور نصرت کے ذریعے سے ان کے ساتھ ہے۔

➎ بعض مفسرین نے اس مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک روایت نقل کی ہے کہ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک غزوہ سے واپس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ رَجَعْنَا مِنَ الْجِهَادِ الْأَصْغَرِ إِلَی الْجِهَادِ الْأَكْبَرِ ] ہم چھوٹے جہاد (یعنی کفار سے لڑائی) سے بڑے جہاد (یعنی نفس سے جہاد) کی طرف واپس آئے ہیں۔ حالانکہ یہ کسی شخص کا قول ہے، اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمے لگانا بہت بڑا جھوٹ اور زبردست دیدہ دلیری ہے۔ جہاد اکبر وہی ہے جس کا ذکر اوپر حدیث رسول میں آیا ہے: [ مَنْ أُهْرِيْقَ دَمُهُ وَ عُقِرَ جَوَادُهُ ] جس کا خون بہا دیا گیا اور اس کا عمدہ گھوڑا کاٹ دیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ نفس کے ساتھ جہاد بھی سب سے بڑھ کر اسی کا ہے جو اللہ کی راہ میں جان دے دیتا ہے۔ کچھ لوگوں نے قتال فی سبیل اللہ کو چھوٹا قرار دیا اور نفس سے جہاد کو بڑا قرار دے کر حجروں میں چلہ کشی کے لیے بیٹھ گئے۔ ایسے آرام دہ جہاد ہی کا نتیجہ ہے کہ مسلمان دنیا میں مغلوب ہیں اور کافر غالب۔ کاش! یہ حضرات راہبوں کے طریقے کے بجائے وہ جہاد کرتے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے کیا، جس کے ساتھ وہ صرف دس سال کے عرصے میں پورے جزیرۂ عرب کے مالک بن گئے اور پھر نصف صدی کے اندر اندر مشرق سے مغرب تک کے فرماں روا بن گئے۔



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.