(آیت 62) ➊ اَللّٰهُ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖ …: یعنی ہجرت کی وجہ سے کسی کا رزق کم نہیں ہوتا۔ رزق کا فراخ ہونا یا تنگ ہونا اللہ تعالیٰ کی مشیت پر موقوف ہے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے، وہی جانتا ہے کہ کس کو کتنا رزق دینا چاہیے۔ اور اگر خطاب مشرکین سے ہو تو مطلب یہ ہے کہ رزق کھول دینا یا بند کر دینا تمھارے بنائے ہوئے داتاؤں اور دستگیروں کے ہاتھ میں نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز کا پوری طرح علم رکھنے والا ہے۔
➋ ”اللہ رزق فراخ کر دیتا ہے اپنے بندوں میں سے جس کے لیے چاہے اور اس کے لیے تنگ کر دیتا ہے“ کا ایک مطلب تویہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس کا رزق چاہتا ہے فراخ کردیتا ہے اور جس کا چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے، لیکن ”يَقْدِرُ“ کے بعد” لَهٗ “ کی وجہ سے ایک مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس کے لیے چاہتا ہے رزق فراخ کر دیتا ہے اور اسی کے لیے کبھی تنگ بھی کر دیتا ہے۔ یہ اس کی مشیت پر موقوف ہے، جب چاہے کسی کا رزق کھول دے اور جب چاہے اس کا رزق تنگ کر دے، اس کا ہجرت کرنے یا نہ کرنے سے کوئی تعلق نہیں۔
➌ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس کے لیے چاہے رزق فراخ کر دیتا ہے اور اس کے لیے تنگ کر دیتا ہے، مگر بند نہیں کرتا۔
➍ اِنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ: یعنی اللہ کی مشیت اندھے کی لاٹھی کی طرح نہیں کہ بلا وجہ کسی کا رزق فراخ کر دے یا تنگ کر دے، بلکہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے، وہ اپنے بندوں کی مصلحتوں سے خوب واقف ہے کہ کس کے حق میں فراخی سے روزی دینا بہتر ہے اور کس کے حق میں تنگی سے روزی دینا، یا ایک ہی بندے کو کب فراخی سے روزی دینا بہتر ہے اور کب تنگی سے۔