(آیت 61) ➊ وَ لَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ …: یہاں سے کلام کا رُخ پھر اہلِ مکہ کی طرف ہو گیا ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے معبودِ واحد ہونے کی دلیل کے طور پر مشرکینِ مکہ کے اس اعتراف کا ذکر ہے کہ کائنات کو پیدا کرنے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ چنانچہ فرمایا، اے رسول! یا اے مخاطب! اگر تو ان مشرکین سے پوچھے کہ وہ کون ہے جس نے یہ سب آسمان پیدا کیے اور یہ زمین پیدا کی؟ اور وہ کون ہے جس نے تمھارے فائدے کے لیے سورج اور چاند کو مسخر کر دیا؟ تو یقینا وہ کسی تردّد کے بغیر کہیں گے کہ وہ ”الله“ ہے۔ یہ ایک حیران کن حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا آج تک کسی نے یہ دعویٰ بھی نہیں کیا کہ میں نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے اور میں نے سورج اور چاند کو مسخر کر دیا ہے۔ اس لیے کتنا بڑے سے بڑا مشرک ہو، اسے یہ حقیقت ماننے کے بغیر چارہ نہیں۔
➋ فَاَنّٰى يُؤْفَكُوْنَ: یہ ان کی الٹی سوچ پر اور اپنے ہی قول کے خلاف عمل پر تعجب کا اظہارہے۔ یعنی جب تم مانتے ہو کہ اکیلا اللہ تعالیٰ ہی آسمان و زمین کو پیدا کرنے والا اور سورج و چاند کو مسخر کرنے والا ہے، تو عبادت میں کسی اور کو کیوں شریک کرتے ہو اور کسی اور پر بھروسا کیوں کرتے ہو؟ اللہ تعالیٰ نے بہت سے مقامات پر اپنے اکیلے رب اور مالک ہونے کو اپنے اکیلا معبود ہونے کی دلیل کے طور پر پیش فرمایا ہے، کیوں کہ مشرکین اس کا اعتراف کرتے تھے۔
➌ بعض مفسرین نے پچھلی آیت کے ساتھ اس آیت کی مناسبت یہ بیان کی ہے کہ اس آیت کے مخاطب فکر معاش کی وجہ سے ہجرت میں تردّد کرنے والے حضرات ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ یہ زمین و آسمان، سورج اور چاند سب کو پیدا کرنے والا اور انھیں اپنے اپنے کام پر لگانے والا اللہ تعالیٰ ہے اور انسان کی تمام ضروریاتِ زندگی اسی نظام سے وابستہ ہیں۔ انھی ضروریات میں سے ایک ضرورت کھانے پینے کی اور ذریعہ معاش کی ہے۔ تو مسلمان جہاں بھی ہجرت کر کے جائیں گے یہ سارا نظام وہاں بھی موجود ہو گا اور اللہ عزوجل انھیں وہاں بھی ایسے ہی روزی مہیا کرے گا جیسے یہاں کر رہا ہے، تو یہ لوگ کہاں بہکائے جارہے ہیں۔