(آیت 51) ➊ اَوَ لَمْ يَكْفِهِمْ اَنَّاۤ اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتٰبَ …: فرمایا، یہ لوگ نشانی طلب کرتے ہیں، کیا نشانی کے لیے انھیں یہ کافی نہیں کہ ہم نے آپ پر یہ عظیم کتاب نازل کی ہے، جب کہ آپ اُمّی (اَن پڑھ) تھے؟ ایک اَن پڑھ شخص پر اتنی عظیم کتاب کا نازل ہونا کیا کم معجزہ ہے، جس کی ایک سورت کی مثال لانے سے کل عالم عاجز ہے؟ مطلب یہ کہ اگر تم ہدایت قبول کرنا چاہو تو قرآن کریم ہی اس مقصد کے لیے کافی معجزہ ہے، اس کے ہوتے ہوئے مزید نشانیاں طلب کرنا محض ہٹ دھرمی ہے۔ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ مَا مِنَ الْأَنْبِيَاءِ نَبِيٌّ إِلاَّ أُعْطِيَ مِنَ الْآيَاتِ مَا مِثْلُهُ أُوْمِنَ، أَوْ آمَنَ عَلَيْهِ الْبَشَرُ وَإِنَّمَا كَانَ الَّذِيْ أُوْتِيْتُهُ وَحْيًا أَوْحَاهُ اللّٰهُ إِلَيَّ فَأَرْجُوْ أَنِّيْ أَكْثَرُهُمْ تَابِعًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ ][بخاري، الاعتصام بالکتاب و السنۃ، باب قول النبي صلی اللہ علیہ وسلم بعثت بحوامع الکلم: ۷۲۷۴ ]”انبیاء میں سے جو بھی نبی تھا، اسے نشانیوں میں سے ایسی نشانیاں دی گئیں جن نشانیوں (کو دیکھ کر ان) پر آدمی ایمان لائے اور مجھے جو نشانی دی گئی وہ صرف وحی ہے، جو اللہ تعالیٰ نے میری طرف وحی فرمائی۔ اس لیے میں امید کرتا ہوں کہ قیامت کے دن میری پیروی کرنے والے ان سب سے زیادہ ہوں گے۔“
➋ يُتْلٰى عَلَيْهِمْ: یہ کتاب ہر جگہ اور ہر وقت ان کے سامنے پڑھی جا رہی ہے، یعنی ایسا نہیں کہ یہ معجزہ ان سے مخفی یا ان کی نگاہوں سے کسی وقت اوجھل ہو۔ جب کہ اس سے پہلے انبیاء کے معجزے ہر وقت سامنے نہیں ہوتے تھے۔ عصائے موسیٰ سانپ بنا مگر چند بار، ہر وقت نہیں۔
➌ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَرَحْمَةً وَّ ذِكْرٰى لِقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ: اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کردہ معجزہ (قرآن کریم) کی دوخصوصیات بیان فرمائیں، جو پہلے کسی پیغمبر کے معجزے میں نہیں تھیں۔ پہلی یہ کہ پہلے پیغمبروں کے معجزے ان کی اقوام کے لیے عذاب کا باعث ہوتے، کیونکہ ان میں حقیقت سے اس طرح پردہ اٹھا دیا گیا تھا کہ جب آنکھوں سے دیکھ کر وہ ایمان نہ لائے تو اللہ کے عذاب نے ان کا نام ونشان مٹا دیا۔ اس کے برعکس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کردہ معجزہ (قرآن کریم) بنی نوع انسان کے لیے سراسر رحمت ہے، کیونکہ اسے نہ ماننے والوں کے لیے بھی مہلت ہے کہ ان پر فوراً عذاب نہیں آتا۔ یہ ” اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَرَحْمَةً “ کا مطلب ہے۔ دوسری خصوصیت یہ کہ پہلے پیغمبروں کے معجزے ان کے ساتھ ہی دنیا سے رخصت ہوگئے، جب کہ قرآن کریم قیامت تک اہلِ ایمان کی نصیحت اور یاد دہانی کے لیے باقی رہے گا۔ یہ ” ذِكْرٰى “ کا مفہوم ہے۔