(آیت 45) ➊ اُتْلُ مَاۤ اُوْحِيَ اِلَيْكَ مِنَ الْكِتٰبِ …: مکہ مکرمہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں پر جو ظلم و ستم ہو رہا تھا اور انھیں ایمان پر ثابت قدم رہنے میں جو مشکلات پیش آرہی تھیں سورت کے شروع سے یہاں تک انھیں ان مشکلات کو برداشت کرنے اور ان پر استقامت اختیار کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی آزمائش کی سنت بیان کی گئی۔ اس کے نمونے کے لیے پہلے اولو العزم پیغمبروں کی آزمائش اور ان کی قوموں کے شدید معاندانہ رویے پر ان کے صبر کو بیان کیا گیا، ساتھ ہی نافرمان اقوام کا عبرت ناک انجام ذکر کیا گیا۔ مقصد مسلمانوں کو تسلی دینا اور مشکل سے مشکل حالات میں استقامت کی تلقین ہے۔ اب وہ عملی تدبیر بتائی جس سے مومن میں وہ صلاحیت پیدا ہوتی ہے جس سے وہ باطل کے مقابلے میں کھڑا رہ سکتا ہے اور اس وقت بھی اللہ تعالیٰ کے احکام پر کار بند رہ سکتا ہے جب ہر طرف بے حیائی اور برائی کا دور دورہ اور اس کی زبردست اشاعت اور ترغیب موجود ہو۔
➋ اُتْلُ مَاۤ اُوْحِيَ اِلَيْكَ مِنَ الْكِتٰبِ: اس مقصد کے لیے پہلا حکم کتاب اللہ کی تلاوت ہے۔ یہاں قابلِ غور بات یہ ہے کہ دوسرے مقامات پر دوسرے لوگوں کو پڑھ کر سنانے کا حکم ہے، مثلاً سورۂ مائدہ میں ہے: « وَ اتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَاَ ابْنَيْ اٰدَمَ بِالْحَقِّ »[المائدۃ: ۲۷ ]”اور ان پر آدم کے دو بیٹوں کی خبر کی تلاوت حق کے ساتھ کر۔“ سورۂ اعراف میں ہے: « وَ اتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَاَ الَّذِيْۤ اٰتَيْنٰهُ اٰيٰتِنَا فَانْسَلَخَ مِنْهَا »[ الأعراف: ۱۷۵ ]”اور انھیں اس شخص کی خبر پڑھ کر سنا جسے ہم نے اپنی آیات عطا کیں تو وہ ان سے صاف نکل گیا۔“ سورۂ یونس میں ہے: « وَ اتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَاَ نُوْحٍ »[ یونس: ۷۱ ]”اور ان پر نوح کی خبر پڑھ۔“ اور سورۂ شعراء میں ہے: « وَ اتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَاَ اِبْرٰهِيْمَ »[ الشعراء: ۶۹ ]”اور ان پر ابراہیم کی خبر پڑھ۔“ مگر اس مقام پر مطلق تلاوت کا حکم ہے، جس میں سب سے پہلے خود تلاوت کا حکم ہے، پھر تمام لوگوں کے لیے تلاوت کا حکم ہے، ایک اور مقام پر بھی اسی طرح مطلق تلاوت کا حکم ہے، فرمایا: « وَ اتْلُ مَاۤ اُوْحِيَ اِلَيْكَ مِنْ كِتَابِ رَبِّكَ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِهٖ وَ لَنْ تَجِدَ مِنْ دُوْنِهٖ مُلْتَحَدًا »[ الکہف: ۲۷ ]”اور اس کی تلاوت کر جو تیری طرف تیرے رب کی کتاب میں سے وحی کی گئی ہے، اس کی باتوں کو کوئی بدلنے والا نہیں اور نہ اس کے سوا تو کبھی کوئی پناہ کی جگہ پائے گا۔“ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن مجید کو سننے اور اس کی تلاوت سے دل کو سکون و ثبات حاصل ہوتا ہے، جیسا کہ فرمایا: « وَ قَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْ لَا نُزِّلَ عَلَيْهِ الْقُرْاٰنُ جُمْلَةً وَّاحِدَةً كَذٰلِكَ لِنُثَبِّتَ بِهٖ فُؤَادَكَ وَ رَتَّلْنٰهُ تَرْتِيْلًا »[ الفرقان: ۳۲ ]”اور ان لوگوں نے کہا جنھوں نے کفر کیا، یہ قرآن اس پر ایک ہی بار کیوں نہ نازل کر دیا گیا؟ اسی طرح (ہم نے اتارا) تاکہ ہم اس کے ساتھ تیرے دل کو مضبوط کریں اور ہم نے اسے ٹھہر ٹھہر کر پڑھا، خوب ٹھہر کر پڑھنا۔“
قرآن کی تلاوت ہی سے دل میں ایمان، کردار کی پختگی اور مصائب و مشکلات برداشت کرنے کی طاقت پیدا ہوتی ہے اور یہ بات تجربے سے ثابت ہے کہ جس شاعر یا مصنف کا کلام بار بار پڑھا جائے آدمی کو اس سے محبت ہو جاتی ہے، اس لیے قرآن کی تلاوت اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے، پھر اس میں مذکور اللہ تعالیٰ کی توحید، اس کی صفات، اس کے احکام و مواعظ اور پہلی امتوں اور پیغمبروں کے واقعات بار بار پڑھنے سے اللہ تعالیٰ کا دین ہر وقت آنکھوں کے سامنے رہتا ہے، جس سے اس پر عمل آسان ہوجاتا ہے۔ رات کے قیام میں اس کی تلاوت کی برکات کا تو شمار ہی نہیں۔ (دیکھیے سورۂ مزمل) اس طرح کثرتِ تلاوت کے ساتھ قرآن سینے میں محفوظ ہوجاتا اور محفوظ رہتا ہے، جس پر آدمی خود بھی عمل کر سکتا ہے اور دوسروں کو بھی اس کی دعوت و تبلیغ کر سکتا ہے اور اس کی تعلیم دے سکتا ہے، اگر اس کی تلاوت میں سستی کی جائے تو یہ بہت جلد سینے سے نکل جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ تَعَاهَدُوا الْقُرْآنَ فَوَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِيَدِهِ لَهُوَ أَشَدُّ تَفَصِّيًا مِنَ الْإِبِلِ فِيْ عُقُلِهَا ][ بخاري، فضائل القرآن، باب استذکار القرآن و تعاھدہ: ۵۰۳۳ ]”قرآن کا دھیان رکھو، کیونکہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! وہ اس سے بھی جلدی چھوٹ کر نکل جاتا ہے جتنی جلدی اونٹ اپنی رسیوں میں سے نکل جاتے ہیں۔“ بڑے ہی بد نصیب ہیں وہ لوگ جو قرآن کو محض ایک خط قرار دے کر اس کی تلاوت کو بے کار مشغلہ قرار دیتے ہیں۔
➌ اگرچہ قرآن کی تلاوت جس طرح بھی ہو فائدے اور ثواب سے خالی نہیں، مگر اس کا حقیقی فائدہ تبھی حاصل ہو سکتا ہے جب اسے سمجھ کر پڑھا جائے، کیونکہ اس کے بغیر اس پر تدبر ممکن نہیں، جو اس کا اصل مقصد ہے، جیسا کہ فرمایا: « اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰى قُلُوْبٍ اَقْفَالُهَا »[ محمد: ۲۴ ]”تو کیا وہ قرآن میں غور نہیں کرتے، یا کچھ دلوں پر ان کے قفل پڑے ہوئے ہیں؟“ سمجھ کر پڑھنے ہی سے آدمی اس پر عمل کرسکتا ہے اور اسی سے اس میں باطل سے مقابلے کا جذبہ اور اس کی قوت پیدا ہوتی ہے۔ اکثر اہلِ کتاب کی بربادی کا باعث یہی ہوا کہ وہ تعلیم اور عمل کے بغیر تورات کے لفظوں کی تلاوت پر قانع ہو گئے۔ دیکھیے سورۂ بقرہ کی آیت (۷۸) کی تفسیر۔ آج کل مسلمانوں کی اکثریت کا بھی یہی حال ہے۔ کتاب اللہ کی تلاوت میں اس کا لوگوں کو سنانا اور دعوت دینا بھی شامل ہے۔
➍ وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ: دوسرا حکم نماز کی اقامت کا ہے، کیونکہ اس سے آدمی میں اپنے رب کے ساتھ وہ تعلق پیدا ہو جاتا ہے جو اس کے لیے ہر مصیبت اور مشکل میں مدد گار ثابت ہوتا ہے۔ (دیکھیے بقرہ: ۴۵، ۴۶)”اقامتِ صلاۃ“ میں صلاۃ سے مراد تمام فرض نمازیں ہیں اور قائم کرنے سے مراد انھیں درست طریقے سے ادا کرنا ہے، جیسا کہ سورۂ بقرہ کی آیت (۳) کی تفسیر میں گزر چکا ہے۔
➎ اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ: ” اِنَّ “ عموماً تعلیل کے لیے ہوتا ہے، یعنی نماز قائم کرنے کا حکم اس لیے ہے کہ نماز ” الْفَحْشَآءِ “ اور ” الْمُنْكَرِ “ سے روکتی ہے۔ ” الْفَحْشَآءِ “ کوئی بھی قول یا فعل جس میں بہت بڑی قباحت ہو۔ (راغب) مثلاً زنا وغیرہ اور ” الْمُنْكَرِ “ وہ قول و عمل جس کا انسانی فطرت اور عقل انکار کرتی ہو۔ نماز کے بے حیائی اور برائی سے روکنے کے دو مطلب ہوسکتے ہیں، ایک یہ کہ نماز میں یہ تاثیر ہے کہ اس سے انسان بے حیائی اور برائی سے باز آجاتا ہے۔ دوسرا یہ کہ نماز کا نمازی سے تقاضا یہ ہے کہ وہ بے حیائی اور برائی سے باز آجائے۔ یہ دونوں مطلب درست ہیں اور ایک دوسرے کو لازم وملزوم ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ وہ آدمی جو نماز کو اس کے اوقات پر جماعت کے ساتھ ادا کرے، اس کے ارکان و شروط اور خشوع کا خیال رکھتے ہوئے صحیح طریقے سے ادا کرے، اس میں پڑھی جانے والی فاتحہ اور دوسری دعاؤں کے ذریعے سے دل کی حاضری کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے مناجات کرے اور باربار ”رَبِّ اغْفِرْلِيْ“ اور استغفار کی دوسری دعاؤں کے ساتھ بخشش کی درخواست کرے اور اس پر ہمیشگی اختیار کرے، تو یقینا نماز اسے بے حیائی اور برائی سے روک دے گی۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا: [ إِنَّ فُلاَنًا يُصَلِّيْ بِاللَّيْلِ، فَإِذَا أَصْبَحَ سَرَقَ قَالَ إِنَّهُ سَيَنْهَاهُ مَا تَقُوْلُ ][ مسند أحمد: 447/2، ح: ۹۷۹۲، قال المحقق صحیح ]”فلاں شخص رات نماز پڑھتا ہے، جب صبح ہوتی ہے تو چوری کرتا ہے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عنقریب اس کا یہ عمل اسے اس کام سے روک دے گا جو تو کہہ رہا ہے۔“ یہاں ایک سوال ہے کہ کیا وجہ ہے کہ کئی لوگ نماز ادا کرتے ہیں مگر بے حیائی اور برائی سے باز نہیں آتے؟ اس کے دو جواب ہیں، ایک یہ کہ اگر وہ نماز کو اخلاص اور اس کے ارکان و آداب اور خشوع کا خیال رکھتے ہوئے دل کی حاضری کے ساتھ روزانہ پانچ مرتبہ مسجد میں باجماعت ادا کرتے تو یقینا ان کی نماز انھیں فحشاء اور منکر سے باز رکھتی۔ اگر اس کا یہ اثر ظاہر نہیں ہوا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ نماز میں خلل ہے، دوا کے اجزا پورے نہیں، تبھی شفا نہیں ہوئی۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ نماز تو کہتی ہے کہ جب تو ہر کام چھوڑ کر مسجد میں آ گیا، تیرے باوضو ہونے سے اور تیرے ادا کیے جانے والے الفاظ سے تیرے رب کے سوا کوئی واقف نہیں، پھر بھی تو بے وضو نماز نہیں پڑھتا، نماز میں فضول بات نہیں کرتا، تو جس رب کے ڈر سے نماز میں اس کی نافرمانی سے پرہیز کرتا ہے نماز کے بعد بھی تجھے اس کے خوف سے ہر بے حیائی اور برائی سے اجتناب لازم ہے۔ نماز بہر حال بے حیائی اور برائی سے منع کرتی ہے، کوئی اس کا کہا نہ مانے تو اس کی مرضی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ بھی بے حیائی اور برائی سے منع کرتا ہے، فرمایا: « وَ يَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ وَ الْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ »[ النحل: ۹۰ ]”اور اللہ بے حیائی اور برائی اور سرکشی سے منع کرتا ہے، وہ تمھیں نصیحت کرتا ہے، تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔“ پھر کوئی اس کا حکم مانتا ہے، کوئی نہیں مانتا۔
➏ اس مقام پر کتبِ تفسیر میں چند احادیث مروی ہیں جو سنداً ثابت نہیں ہیں۔ تفسیر ابن کثیر میں سے وہ روایات اس کے محقق دکتور حکمت بن بشیر کی تحقیق کے ساتھ نقل کی جاتی ہیں: (1) ابن ابی حاتم نے عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالیٰ کے فرمان ” اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ “ کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ مَنْ لَّمْ تَنْهَهُ صَلَاتُهُ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ فَلَا صَلَاةَ لَهُ ]”جس شخص کی نماز اسے فحشاء اور منکر سے نہ روکے اس کی کوئی نماز نہیں۔“ اس کی سند میں ایک راوی عمر بن ابی عثمان مجہول ہے۔ (2) ابن ابی حاتم اور طبرانی نے ابن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ مَنْ لَّمْ تَنْهَهُ صَلَاتُهُ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ لَمْ يَزْدَدْ بِهَا مِنَ اللّٰهِ إِلَّا بُعْدًا ]”جس شخص کی نماز اسے بے حیائی اور برائی سے نہ روکے اس نماز کے ساتھ اس کی اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوری ہی میں اضافہ ہو گا۔“ یہ روایت لیث بن ابی سلیم راوی کے ضعف کی وجہ سے ضعیف ہے۔ (3) ابن جریر طبری نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَّمْ يُطِعِ الصَّلَاةَ وَطَاعَةُ الصَّلَاةِ تَنْهَاهُ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ ]”جو شخص نماز کی اطاعت نہ کرے اس کی نماز نہیں اور نماز کی اطاعت اسے فحشاء اور منکر سے روکے گی۔“ اس کی سند میں دو راوی جویبر اور حسین (بن داؤد) ضعیف ہیں اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کرنے والے راوی ضحاک کی ان سے ملاقات ثابت نہیں۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے ان تمام روایات کے متعلق فرمایا: ”زیادہ صحیح یہ ہے کہ یہ موقوف (صحابہ کے اقوال) ہیں (مگر صحابہ سے بھی اکثر اقوال کی سند کمزور ہے)۔“ یہ روایات جن میں برائی سے نہ روکنے والی نماز کو کالعدم اور اللہ تعالیٰ سے دوری کا باعث بیان کیا گیا ہے، ان کی حقیقت میں نے اس لیے بیان کر دی ہے کہ ایسا فتویٰ لگانے والا شخص فتویٰ کی سنگینی پر غور کرے اور اس بات پر بھی کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمے ایسی بات لگا رہا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں۔
➐ وَ لَذِكْرُ اللّٰهِ اَكْبَرُ: اس کے تین مطلب بیان کیے گئے ہیں، ایک یہ کہ نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے اور وہ کیوں نہ روکے گی جب کہ وہ اللہ کا ذکر ہے، جیسے فرمایا: « وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِيْ »[ طٰہٰ: ۱۴ ]”اور میری یاد کے لیے نماز قائم کر۔“ اور یقینا اللہ کا ذکر اور اس کی یاد برائی اور بے حیائی سے روکنے میں سب سے بڑی چیز ہے۔ دوسرا یہ کہ نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے اور یقینا اللہ کا ذکر اور اس کی یاد نماز میں ہو یا اس کے بعد، فحشاء اور منکر سے روکنے میں سب سے بڑی چیز ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد، اس کا دھیان اور ہر وقت اسے پیش نظر رکھنا ہی آدمی کو گناہ سے باز رکھتا ہے اور گناہ اسی وقت سر زد ہوتا ہے جب آدمی اس بات سے غافل ہوتا ہے کہ میرا مالک مجھے دیکھ رہا ہے۔ اوپر کے دونوں مطلب اس وقت ہیں جب لفظ ”ذِكْرٌ“ اپنے مفعول کی طرف مضاف مانا جائے اور ترجمہ یہ کیا جائے کہ (بندے کا) اللہ تعالیٰ کو یاد کرنا سب سے بڑی بات ہے۔ تیسرے مطلب کے مطابق لفظ ”ذِكْرٌ“ اپنے فاعل کی طرف مضاف ہے، ترجمہ یہ ہوگا کہ یقینا اللہ تعالیٰ کا (اپنے بندے کو) یاد کرنا سب سے بڑی بات ہے۔ یعنی نماز میں بندہ اپنے رب کا ذکر کرتا اور اسے یاد کرتا ہے تو یہ بڑی بات ہے، لیکن اس کے جواب میں ادھر سے اللہ تعالیٰ جو بندے کا ذکر کرتا اور اسے یاد کرتا ہے یہ سب سے بڑی بات ہے۔ یہ تفسیر امام طبری نے معتبر سند کے ساتھ ابن عباس رضی اللہ عنھما سے نقل فرمائی ہے۔ اس تفسیر میں اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی طرف اشارہ ہے: « فَاذْكُرُوْنِيْۤ اَذْكُرْكُمْ وَ اشْكُرُوْا لِيْ وَ لَا تَكْفُرُوْنِ »[ البقرۃ: ۱۵۲ ]”سو تم مجھے یاد کرو، میں تمھیں یاد کروں گا اور میرا شکر کرو اور میری نا شکری مت کرو۔“
➑ بعض مفسرین نے نماز کے برائی اور بے حیائی سے روکنے کا مطلب یہ بیان فرمایا ہے کہ جتنی دیر آدمی نماز میں رہے گا کم از کم اتنی دیر تو بے حیائی اور برائی سے باز رہے گا۔ شاہ عبد القادر لکھتے ہیں: ”جتنی دیر نماز میں لگے اتنا تو ہر گناہ سے بچے، امید ہے آگے بھی بچتا رہے اور اللہ کی یاد کو اس سے زیادہ اثر ہے، یعنی گناہ سے بچے اور اعلیٰ درجوں پر چڑھے۔“(موضح) بعض لوگوں نے اس تفسیر پر اعتراض کیا ہے کہ نماز کے علاوہ بھی کئی کام ہیں جن میں مصروف رہنے تک آدمی گناہ سے بچا رہتا ہے، مگر یہ اعتراض بے سود ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ صرف نماز ہی بے حیائی سے روکتی ہے۔
➒ وَ اللّٰهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُوْنَ: یعنی نیک یا بد جو بھی عمل تم کرتے ہو اللہ تعالیٰ اسے جانتا ہے اور تمھیں اس کی جزا یا سزا دے گا۔ اس میں بشارت بھی ہے اور نذارت بھی۔ یہ الفاظ اس بات کی دلیل ہیں کہ آیت کے شروع میں ” اُتْلُ مَاۤ اُوْحِيَ اِلَيْكَ مِنَ الْكِتٰبِ وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ “ کے مخاطب اگرچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، مگر مراد آپ کے ساتھ پوری امت بھی ہے، اسی لیے آیت کے آخر میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔