ارشاد ہوتا ہے کہ ” اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپ تنگ دل اور مغموم نہ ہوں جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے یہ کفار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دشمنی کرتے ہیں «فَإِن كَذَّبُوكَ فَقَدْ كُذِّبَ رُسُلٌ مِّن قَبْلِكَ»[3-آل عمران:184] اسی طرح ہر نبی کے زمانے کے کفار اپنے اپنے نبیوں کے ساتھ دشمنی کرتے رہے ہیں “ -
جیسے اور آیت میں تسلی دیتے ہوئے فرمایا «وَلَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِكَ فَصَبَرُوْا عَلٰي مَا كُذِّبُوْا وَاُوْذُوْا حَتّٰى اَتٰىهُمْ نَصْرُنَا وَلَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِ اللّٰهِ وَلَقَدْ جَاءَكَ مِنْ نَّبَاِى الْمُرْسَلِيْنَ»[6-الأنعام:34] ” تجھ سے پہلے کے پیغمبروں کو بھی جھٹلایا گیا انہیں بھی ایذائیں پہنچائی گئیں جس پر انہوں نے صبر کیا “۔
اور آیت میں کہا گیا ہے کہ «مَا يُقَالُ لَكَ إِلَّا مَا قَدْ قِيلَ لِلرُّسُلِ مِنْ قَبْلِكَ إِنَّ رَبَّكَ لَذُو مَغْفِرَةٍ وَذُو عِقَابٍ أَلِيمٍ»[41-فصلت:43] ” تجھ سے بھی وہی کہا جاتا ہے جو تجھ سے پہلے کے نبیوں کو کہا گیا تھا تیرا رب بڑی مغفرت والا ہے اور سات ہی المناک عذاب کرنے والا بھی ہے “
اور آیت میں ہے «وَكَذٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا مِّنَ الْمُجْرِمِيْنَ وَكَفٰى بِرَبِّكَ هَادِيًا وَّنَصِيْرًا»[25-الفرقان:31] ” ہم نے گنہگاروں کو ہر نبی علیہ السلام کا دشمن بنا دیا ہے “۔ یہی بات ورقہ بن نوفل نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جیسی چیز جو رسول بھی لے کر آیا اس سے عداوت کی گئی ۔ [صحیح بخاری:3]
نبیوں کے دشمن شریر انسان بھی ہوتے ہیں اور جنات بھی «عَدُوًّا» سے بدل «شَيَاطِينَ الْإِنسِ وَالْجِنِّ» ہے، انسانوں میں بھی شیطان ہیں اور جنوں میں بھی۔
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ ایک دن نماز پڑھ رہے تھے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: کیا تم نے شیاطین انس و جن سے اللہ کی پناہ بھی مانگ لی؟ صحابی رضی اللہ عنہ نے پوچھا کیا انسانوں میں بھی شیطان ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں ۔ یہ حدیث منقطع ہے۔ [تفسیر عبد الرزاق:846:ضعیف و منقطع]
ایک اور روایت میں ہے کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس مجلس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم دیر تک تشریف فرما رہے، مجھ سے فرمانے لگے ابوذر (رضی اللہ عنہ) تم نے نماز پڑھ لی؟ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں پڑھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اٹھو اور دو رکعت ادا کرلو ۔ جب میں فارغ ہوکر آیا تو فرمانے لگے کیا تم نے شیاطین انس و جن سے اللہ کی پناہ بھی مانگ لی؟ میں نے کہا نہیں، کیا انسانوں میں بھی شیطان ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں! اور وہ جنوں اور شیطانوں سے زیادہ شریر ہیں ۔ یہ حدیث منقطع ہے۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:13773:ضعیف و منقطع]
ایک متصل روایت مسند احمد میں مطول ہے اس میں یہ بھی ہے کہ یہ واقعہ مسجد کا ہے [مسند احمد:178/5:ضعیف] اور روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس فرمان کے بعد یہ پڑھنا بھی مروی ہے کہ آیت «وَكَذٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَـيٰطِيْنَ الْاِنْسِ وَالْجِنِّ يُوْحِيْ بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا»[6-الأنعام:112] [مسند احمد:265/5:ضعیف] -الغرض یہ حدیث بہت سی سندوں سے مروی ہے جس سے قوت صحت کا فائدہ ہو جاتا ہے «وَاللهُ اَعْلَمُ» -
عکرمہ رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ ”انسانوں میں شیطان نہیں جنات کے شیاطین ایک دوسرے سے کانا پھوسی کرتے ہیں۔“ آپ رحمہ اللہ سے یہ بھی مروی ہے کہ ”انسانوں کے شیطان جو انسانوں کو گمراہ کرتے ہیں اور جنوں کے شیطان جو جنوں کو گمراہ کرتے ہیں جب آپس میں ملتے ہیں تو ایک دوسرے سے اپنی کار گزاری بیان کرتے ہیں کہ میں نے فلاں کو اس طرح بہکا یا تو فلاں کو اس طرح بہکایا ایک دوسرے کو گمراہی کے طریقے بتاتے ہیں۔“
اس سے امام ابن جریر رحمہ اللہ تو یہ سمجھے ہیں کہ شیطان تو جنوں میں سے ہی ہوتے ہیں لیکن بعض انسانوں پر لگے ہوئے ہوتے ہیں بعض جنات پر تو یہ مطلب عکرمہ رحمہ اللہ کے قول سے تو ظاہر ہے ہاں سدی رحمہ اللہ کے قول میں متحمل ہے۔
ایک قول میں عکرمہ اور سدی رحمہ اللہ علیہم دونوں سے یہ مروی ہے، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ”جنات کے شیاطین ہیں جو انہیں بہکاتے ہیں جیسے انسانوں کے شیطان جو انہیں بہکاتے ہیں اور ایک دوسرے سے مل کر مشورہ دیتے ہیں کہ اسے اس طرح بہکا۔“ صحیح وہی ہے جو سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ والی حدیث میں اوپر گزرا۔ عربی میں ہر سرکش شریر کو شیطان کہتے ہیں صحیح مسلم میں ہے کہ حضور نے سیاہ رنگ کے کتے کو شیطان فرمایا ہے ۔ [صحیح مسلم:510] تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ وہ کتوں میں شیطان ہے «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں ”کفار جن، کفار انسانوں کے کانوں میں صور پھونکتے رہتے ہیں۔“ عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ”میں مختار ابن ابی عبید کے پاس گیا اس نے میری بڑی تعظیم تکریم کی اپنے ہاں مہمان بنا کر ٹھہرایا رات کو بھی شاید اپنے ہاں سلاتا لیکن مجھ سے اس نے کہا کہ جاؤ لوگوں کو کجھ سناؤ میں جا کر بیٹھا ہی تھا کہ ایک شخص نے مجھ سے پوچھا آپ وحی کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ میں نے کہا وحی کی دو قسمیں ہیں ایک اللہ کی طرف سے جیسے فرمان ہے آیت «بِمَآ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ وَاِنْ كُنْتَ مِنْ قَبْلِهٖ لَمِنَ الْغٰفِلِيْنَ»[12-یوسف:3] اور دوسری وحی شیطانی جیسے فرمان ہے «وَكَذٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَـيٰطِيْنَ الْاِنْسِ وَالْجِنِّ يُوْحِيْ بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا»[6-الأنعام:112] اتنا سنتے ہی لوگ میرے اوپر پل پڑے قریب تھا کہ پکڑ کر مارپیٹ شروع کر دیں میں نے کہا ارے بھائیو! یہ تم میرے ساتھ کیا کرنے لگے؟ میں نے تو تمہارے سوال کا جواب دیا اور میں تو تمہارا مہمان ہوں چنانچہ انہوں نے مجھے چھوڑ دیا۔“
مختار ملعون لوگوں سے کہتا تھا کہ میرے پاس وحی آتی ہے اس کی بہن صفیہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے گھر میں تھیں اور بڑی دیندار تھیں۔
جب عبداللہ رضی اللہ عنہ کو مختار کا یہ قول معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا وہ ٹھیک کہتا ہے قرآن میں ہے «وَاِنَّ الشَّيٰطِيْنَ لَيُوْحُوْنَ اِلٰٓي اَوْلِيٰـــِٕــهِمْ لِيُجَادِلُوْكُمْ وَاِنْ اَطَعْتُمُوْهُمْ اِنَّكُمْ لَمُشْرِكُوْنَ»[6-الأنعام:121] یعنی ” شیطان بھی اپنے دوستوں کی طرف وحی لے جاتے ہیں “ -
الغرض ایسے متکبر سرکش جنات و انس آپ میں ایک دوسرے کو دھوکے بازی کی باتین سکھاتے ہیں یہ بھی اللہ تعالیٰ کی قضاء و قدر اور چاہت و مشیت ہے وہ ان کی وجہ سے اپنے نبیوں کی اولوالعزمی اپنے بندوں کو دکھا دیتا ہے، تو ان کی عداوت کا خیال بھی نہ کر، ان کا جھوٹ تجھے کچھ بھی نقصان نہ پہنچا سکے گا تو اللہ پر بھروسہ رکھ اسی پر توکل کر اور اپنے کام اسے سونپ کر بے فکر ہو جا، وہ تجھے کافی ہے اور وہی تیرا مددگار ہے -
یہ لوگ جو اس طرح کی خرافات کرتے ہیں یہ محض اسلئے کہ بے ایمانوں کے دل ان کی نگاہیں اور ان کے کان ان کی طرف جھک جائیں وہ ایسی باتوں کو پسند کریں اس سے خوش ہو جائیں پس ان کی باتیں وہی قبول کرتے ہیں جنہیں آخرت پر ایمان نہیں ہوتا، ایسے واصل جہنم ہونے والے بہکے ہوئے لوگ ہی ان کی فضول اور چکنی چپڑی باتوں میں پھنس جاتے ہیں پھر وہ کرتے ہیں جو ان کے قابل ہے۔