(آیت 27) ➊ وَ وَهَبْنَا لَهٗۤ اِسْحٰقَ وَ يَعْقُوْبَ: اس آیت میں ایک لطیف فائدہ ہے، وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ابراہیم علیہ السلام پر آنے والے تمام مشکل حالات کو ایسے بہترین حالات کے ساتھ بدل دیا جو پہلے حالات کے بالکل الٹ تھے، یعنی قوم نے انھیں توحید کی دعوت کی وجہ سے آگ میں پھینکا، تو اللہ تعالیٰ نے انھیں اس سے خیریت و سلامتی کے ساتھ بچا لیا۔ وہ پوری قوم میں تنہا تھے، تو اللہ تعالیٰ نے اس کے بدلے میں انھیں اتنی اولاد عطا فرمائی جس سے دنیا بھر گئی۔ ان کے رشتے دار خود گمراہ اور مشرک تھے اور دوسروں کو گمراہ کرنے والے اور شرک کی دعوت دینے والے تھے، جن میں ان کا باپ آزر بھی تھا، تو اللہ تعالیٰ نے ان رشتہ داروں کے بدلے میں ایسے رشتہ دار دیے جو خود ہدایت یافتہ اور دوسروں کو ہدایت دینے والے تھے، یہ ان کی وہ اولاد تھی جن میں اللہ تعالیٰ نے نبوت اور کتاب رکھ دی۔ وہ اپنے وطن میں بے وطن تھے، تو اللہ تعالیٰ نے بابرکت زمین شام میں انھیں ٹھکانا عطا فرمایا۔ ان کے پاس مال و جاہ نہیں تھا، تو اللہ تعالیٰ نے انھیں اتنا مال عطا فرمایا کہ وہ اچانک آنے والے چند مہمانوں کے لیے تھوڑی دیر میں بھنا ہوا بچھڑا لے آتے ہیں اور جاہ و مرتبہ اتنا عطا فرمایا کہ قیامت تک آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود کے ساتھ ان پر بھی درود بھیجا جاتا رہے گا۔ ایک وقت تھا کہ وہ اپنی قوم میں اس قدر بے حیثیت تھے کہ انھیں ایک بے نام شخص سمجھا جاتا تھا، جیسا کہ سورۂ انبیاء میں ہے: « قَالُوْا سَمِعْنَا فَتًى يَّذْكُرُهُمْ يُقَالُ لَهٗۤ اِبْرٰهِيْمُ »[الأنبیاء: ۶۰ ]”انھوں نے کہا ہم نے ایک جوان سنا ہے جسے ابراہیم کہا جاتا ہے۔“ اور دعوت توحید کی وجہ سے ان کی قوم ان کی دشمن تھی، تو اللہ تعالیٰ نے انھیں قیامت تک آنے والوں میں ایسی لسان صدق (سچی شہرت اور ناموری) عطا فرمائی کہ اب کم ہی کوئی شخص ہو گا جو انھیں نہ جانتا ہو۔ یہودی ہوں یا عیسائی یا مسلمان سب ان سے محبت کرتے ہیں، ان کا ذکر اچھے سے اچھے طریقے سے کرتے ہیں اور ان کی طرف نسبت پر فخر کرتے ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام کی زندگی اس بات کی بلا ریب شہادت ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی خاطر کوئی چیز ترک کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اس سے کہیں بہتر چیز عطا کرتا ہے۔
➋ وَ جَعَلْنَا فِيْ ذُرِّيَّتِهِ النُّبُوَّةَ وَ الْكِتٰبَ: یعنی ابراہیم علیہ السلام کے بعد ان کی اولاد کے سوا کسی کو نبوت اور آسمانی کتاب نہیں دی گئی، جتنے انبیاء ہوئے ان کی اولاد سے ہوئے، اس لیے انھیں ابو الانبیاء کہا جاتا ہے۔ ابراہیم علیہ السلام کی اولاد کا ایک سلسلہ اسحاق و یعقوب علیھما السلام کا ہے، جس میں عیسیٰ علیہ السلام تک بہت سے حضرات کو نبوت ملی۔ دوسرا سلسلہ اسماعیل علیہ السلام کا ہے جس میں آخری نبی سید ولد آدم محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہوئے۔ زمخشری نے یہاں ایک سوال ذکر کیا ہے کہ یہاں ابراہیم علیہ السلام کو اسحاق و یعقوب علیھما السلام عطا فرمانے کا ذکر ہے، اسماعیل علیہ السلام کا ذکر نہیں، پھر خود ہی جواب دیا کہ یہاں ان کا اور سید الرسل صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر بھی ” وَ جَعَلْنَا فِيْ ذُرِّيَّتِهِ النُّبُوَّةَ وَ الْكِتٰبَ “ کے ضمن میں موجود ہے۔ بعض مفسرین نے یہاں اسماعیل علیہ السلام کا ذکر صراحت کے ساتھ نہ کرنے میں یہ نکتہ بیان فرمایا ہے کہ اس سورت میں شروع سے اہل ایمان کی آزمائش اور امتحان کا ذکر آرہا ہے، جس میں ابراہیم علیہ السلام کی آزمائش کا ذکر بھی ہے، ان کی آزمائش کے ذکر کے بعد ان پر انعامات کا ذکر ہے، جن میں صراحت کے ساتھ اسحاق و یعقوب علیھما السلام کا ذکر فرمایا، کیونکہ آزمائش کے خاتمے پر بڑھاپے میں ان کا ملنا انعام ہی انعام تھا۔ اسماعیل علیہ السلام بھی اگرچہ اللہ تعالیٰ کا انعام تھے، مگر ان کے ساتھ شدید قسم کے امتحانات بھی وابستہ تھے، مثلاً وادی غیر ذی زرع میں چھوڑنا، انھیں ذبح کرنے کا حکم دینا وغیرہ۔ اس لیے انعام کے تذکرے میں اس کا نام صراحت کے ساتھ ذکر نہیں فرمایا، اگرچہ نبوت و کتاب عطا کی جانے والی اولاد میں ان کا ذکر بھی فرما دیا۔ (واللہ اعلم)
➌ وَ اٰتَيْنٰهُ اَجْرَهٗ فِي الدُّنْيَا: اس سے مراد وہ چیزیں ہیں جن کا ذکر اس آیت کے فائدہ (۱) میں گزرا ہے۔ شاہ عبدالقادر لکھتے ہیں: ”یعنی دنیا میں حق تعالیٰ نے مال، اولاد، عزت اور ہمیشہ کا نام دیا اور ملک شام ہمیشہ کے لیے ان کی اولاد کو بخشا۔“(موضح)
➍ وَ اِنَّهٗ فِي الْاٰخِرَةِ لَمِنَ الصّٰلِحِيْنَ: یعنی دنیا میں دیے جانے والے اجر سے ان کے آخرت کے درجات میں کوئی کمی نہیں ہوئی، بلکہ انھیں صالحین میں شمولیت کا شرف عطا کیا گیا جس کے حصول کی دعا اللہ کے جلیل القدر پیغمبر بھی کرتے رہے، جیسے سلیمان علیہ السلام نے دعا کی: « وَ اَدْخِلْنِيْ بِرَحْمَتِكَ فِيْ عِبَادِكَ الصّٰلِحِيْنَ »[ النمل: ۱۹ ]”اور اپنی رحمت سے مجھے اپنے نیک بندوں میں داخل فرما۔“ اور یوسف علیہ السلام نے دعا کی: « تَوَفَّنِيْ مُسْلِمًا وَّ اَلْحِقْنِيْ بِالصّٰلِحِيْنَ »[ یوسف: ۱۰۱ ]”مجھے مسلم ہونے کی حالت میں فوت کر اور مجھے نیک لوگوں کے ساتھ ملا دے۔“ اور عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرماتے تھے: [ مَا مِنْ نَبِيٍّ يَمْرَضُ إِلاَّ خُيِّرَ بَيْنَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَكَانَ فِيْ شَكْوَاهُ الَّذِيْ قُبِضَ فِيْهِ أَخَذَتْهُ بُحَّةٌ شَدِيْدَةٌ فَسَمِعْتُهُ يَقُوْلُ: «مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَ الصِّدِّيْقِيْنَ۠ وَ الشُّهَدَآءِ وَ الصّٰلِحِيْنَ» [النساء: ۶۹] فَعَلِمْتُ أَنَّهُ خُيِّرَ ][ بخاري، التفسیر، باب: «فاولٓئک مع الذین أنعم اللہ علیھم …»: ۴۵۸۶ ]”جو بھی نبی بیمار ہوتا ہے اسے دنیا اور آخرت کے درمیان اختیار دیا جاتا ہے۔“ اور آپ جس بیماری میں فوت ہوئے آپ کو بہت سخت کھانسی ہوئی، تو میں نے سنا آپ کہہ رہے تھے: ”ان لوگوں کے ساتھ (ملا دے) جن پر تو نے انعام کیا نبیوں، صدیقوں، شہداء اور صالحین میں سے۔“ تو میں نے جان لیا کہ آپ کو اختیار دے دیا گیا ہے۔“
➎ اس آیت میں دینِ حق کی خاطر صبر کرنے میں ابراہیم علیہ السلام کی پیروی کی ترغیب ہے۔