(آیت 14) ➊ وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖ: سورت کے آغاز میں جو فرمایا تھا کہ ہم نے پہلے لوگوں کی بھی آزمائش کی، اس کی کچھ تفصیل کے لیے ان پیغمبروں کا ذکر فرمایا جنھوں نے لمبے عرصے تک آزمائش پر صبر کیا اور قوم کی طرف سے بے شمار اذیتوں کے باوجود ان کی خیر خواہی میں اور انھیں دعوت دینے میں کمی نہیں کی۔ مقصد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے نقشِ قدم پر چلنے والوں کو تسلی دینا ہے۔ ان واقعات کا آغاز نوح علیہ السلام سے فرمایا، کیونکہ وہ پہلے رسول ہیں جو زمین والوں کی طرف بھیجے گئے۔ نوح علیہ السلام کا ذکر قرآن مجید میں تینتالیس (۴۳) جگہ آیا، ان واقعات میں انبیاء اور اہل ایمان کی آزمائش کا ذکر بھی ہے اور اس بات کا بھی کہ کافر اس گمان میں نہ رہیں کہ وہ ہماری گرفت سے بچ نکلیں گے۔ نوح علیہ السلام کے متعلق مزید دیکھیے سورۂ آل عمران (۳۳)، نساء (۱۶۳)، انعام (۸۴)، اعراف (۵۹ تا ۶۴)، یونس (۷۱ تا ۷۳)، انبیاء (۷۶، ۷۷)، مومنون (۲۳ تا ۳۰)، فرقان (۳۷)، شعراء (۱۰۵ تا ۱۲۲)، صافات (۷۵ تا ۸۲)، قمر (۹ تا ۱۵)، حاقہ (۱۱، ۱۲) اور سورۂ نوح مکمل۔
➋ فَلَبِثَ فِيْهِمْ اَلْفَ سَنَةٍ اِلَّا خَمْسِيْنَ عَامًا: نوح علیہ السلام کی اپنی قوم کو سمجھانے کی مدت ساڑھے نو سو (۹۵۰) سال تھی۔ ظاہر ہے کہ منصبِ نبوت پر سرفراز ہونے سے پہلے بھی انھوں نے عمر کا ایک حصہ گزارا ہو گا اور طوفان کے بعد بھی زندہ رہے ہوں گے۔ مفسرین کے ان کی کل عمر کے متعلق مختلف اقوال ہیں، مگر صحتِ سند کے ساتھ کوئی بات ثابت نہیں۔ یہاں ایک سوال ہے کہ نوح علیہ السلام کے اپنی قوم میں رہنے کی مدت بیان کرنے کا کیا فائدہ ہے؟ جواب یہ ہے کہ اس میں دو فائدے ہیں، ایک یہ کہ کفار کے اسلام قبول نہ کرنے اور کفر پر اڑے رہنے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل تنگ ہوتا تھا، آپ کی تسلی کے لیے فرمایا کہ نوح علیہ السلام تقریباً ہزار برس دعوت دیتے رہے، جس کے نتیجے میں ان کی قوم میں بہت تھوڑے لوگ ہی ایمان لائے، اس کے باوجود وہ نہ اکتائے، نہ انھوں نے دعوت دینا ترک کیا، تو آپ کا زیادہ حق بنتا ہے کہ صبر کریں، کیونکہ آپ ان کے مقابلے میں بہت تھوڑا عرصہ ان میں رہے ہیں اور آپ پر ایمان لانے والے کہیں زیادہ ہیں۔ دوسرا فائدہ کفار کو تنبیہ ہے کہ انھیں عذاب میں تاخیر سے کسی دھوکے میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ اللہ تعالیٰ ہزار برس کی مہلت بھی دے دیا کرتا ہے، مگر کفر پر اصرار کرنے والی قوم پر آخر کار اس کا عذاب آ جاتا ہے، جیسا کہ نوح علیہ السلام کی قوم جب ظلم و تعدی سے باز نہ آئی تو طوفان نے انھیں آ لیا۔ ” فَاَخَذَهُمُ الطُّوْفَانُ وَ هُمْ ظٰلِمُوْنَ “ سے ظاہر ہے کہ طوفان کا باعث ان کا ظلم پر اصرار تھا، اگر وہ توبہ کر لیتے تو ان پر عذاب نہ آتا۔
➌ بعض لوگوں کو نوح علیہ السلام کی اتنی عمر پر تعجب ہوتا ہے، مگر اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح قرآن مجید میں نوح علیہ السلام کی طویل عمر کا ذکر ہے، صحیح حدیث کے مطابق انسان کی پیدائش کی ابتدا میں اس کا قد بھی آج کے قد سے کہیں لمبا تھا۔ مدت ہائے دراز گزرنے کے ساتھ دونوں میں کمی آتی گئی۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ خَلَقَ اللّٰهُ آدَمَ عَلٰی صُوْرَتِهِ، طُوْلُهُ سِتُّوْنَ ذِرَاعًا… فَكُلُّ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ عَلٰی صُوْرَةِ آدَمَ، فَلَمْ يَزَلِ الْخَلْقُ يَنْقُصُ بَعْدُ حَتَّی الْآنَ ][ بخاري، الاستئذان، باب بدء السلام: ۶۲۲۷ ]” اللہ تعالیٰ نے آدم کو اس کی صورت پر پیدا کیا، اس کا طول (قد) ساٹھ ہاتھ تھا...... تو جو شخص بھی جنت میں جائے گا آدم کی صورت پر ہو گا۔ پھر بعد میں اب تک خلقت (کا قد) کم ہوتا چلا گیا۔“