(آیت 81) ➊ فَخَسَفْنَا بِهٖ وَ بِدَارِهِ الْاَرْضَ: اللہ تعالیٰ کو اس کے تکبر کے اس مظاہرے پر ایسی غیرت آئی کہ اس نے اسے اور اس کے گھر کو جس میں اس کے اہل و عیال، نوکر چاکر اور خزانے تھے، سب کو زمین میں دھنسا دیا۔ قارون کی اس حالت پر وہ حدیث منطبق ہوتی ہے جو ابن عمر رضی اللہ عنھما نے بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ بَيْنَمَا رَجُلٌ يَجُرُّ إِزَارَهُ مِنَ الْخُيَلاَءِ خُسِفَ بِهِ، فَهُوَ يَتَجَلْجَلُ فِي الْأَرْضِ إِلٰي يَوْمِ الْقِيَامَةِ ][ بخاري، أحادیث الأنبیاء، باب: ۳۴۸۵ ]”ایک آدمی اپنی چادر تکبر سے گھسیٹتا جا رہا تھا، تو اسی حالت میں اسے زمین میں دھنسا دیا گیا اور وہ قیامت کے دن تک زمین میں دھنستا چلا جا رہا ہے۔“ علمائے تفسیر کا رجحان یہ ہے کہ اس سے مراد قارون ہے۔
➋ اس آیت اور حدیث سے معلوم ہوا کہ تکبر سے چادر لٹکانا بھی اللہ تعالیٰ کو اس قدر ناپسند ہے کہ اگر اس کی رحمت نہ ہو تو ایسے آدمی کو زمین میں دھنسا دیا جائے۔ اس میں شک نہیں کہ کپڑا خود بخود ڈھلک جائے تو وہ تکبر نہیں، جیسا کہ ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کا کپڑا ڈھلک جاتا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ تم تکبر سے ایسا نہیں کرتے، مگر بعض لوگ جان بوجھ کر کپڑا لٹکاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تکبر سے ایسا نہیں کرتے۔ ان کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان سنیے، جابر بن سلیم رضی اللہ عنہ نے ایک لمبی حدیث میں بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں فرمایا: [ وَارْفَعْ إِزَارَكَ إِلٰی نِصْفِ السَّاقِ فَإِنْ أَبَيْتَ فَإِلَی الْكَعْبَيْنِ وَ إِيَّاكَ وَ إِسْبَالَ الْإِزَارِ فَإِنَّهَا مِنَ الْمَخِيْلَةِ وَ إِنَّ اللّٰهَ لاَ يُحِبُّ الْمَخِيْلَةَ ][أبو داوٗد، اللباس، باب ما جاء في إسبال الإزار: ۴۰۸۴، و صححہ الألباني ]”اپنی چادر نصف پنڈلی تک اٹھاؤ، اگر نہیں مانتے تو ٹخنوں تک اٹھاؤ، اور چادر لٹکانے سے بچو، کیونکہ یہ تکبر سے ہے اور یقینا اللہ تعالیٰ تکبر کو پسند نہیں کرتا۔“ اس سے ثابت ہوا کہ جان بوجھ کر کپڑا لٹکانا ہی تکبر ہے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان سننے کے بعد اسے نہ ماننا اور جان بوجھ کر کپڑا لٹکانا صاف تکبر ہے۔ جان بوجھ کر چادر لٹکانا اتنا بڑا گناہ ہے کہ ابوذر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ ثَلَاثَةٌ لَا يُكَلِّمُهُمُ اللّٰهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يَنْظُرُ إِلَيْهِمْ وَلَا يُزَكِّيْهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيْمٌ، قَالَ فَقَرَأَهَا رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ، قَالَ أَبُوْ ذَرٍّ خَابُوْا وَخَسِرُوْا مَنْ هُمْ يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ!؟ قَالَ الْمُسْبِلُ إِزَارَهُ وَالْمَنَّانُ وَ الْمُنَفِّقُ سِلْعَتَهُ بِالْحَلِفِ الْكَاذِبِ ][مسلم، الإیمان، باب بیان غلظ تحریم إسبال الإزار…: ۱۰۶]”تین آدمی ایسے ہیں کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نہ ان سے کلام کرے گا، نہ ان کی طرف نگاہ کرے گا اور نہ ان کو پاک کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔“ تین دفعہ فرمایا تو ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا: ”وہ تو ناکام اور نامراد ہو گئے، یا رسول اللہ! وہ کون ہیں؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی چادر (ٹخنوں سے نیچے) لٹکانے والا اور احسان جتلانے والا اور اپنا سامان جھوٹی قسم کے ساتھ بیچنے والا۔“
➌ قرآن مجید کے بیان سے ظاہر ہے کہ اسے زمین میں دھنسانے کا باعث اس کا تکبر اور اس کے اظہار کے لیے اس کا اپنی زینت اور شان و شوکت کے ساتھ نکلنا تھا۔ مگر بعض مفسرین نے اس کی بغاوت اور سرکشی کے اور واقعات بھی بیان کیے ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے کہ قارون نے ایک فاحشہ عورت کو اس شرط پر کچھ مال دیا کہ وہ موسیٰ علیہ السلام پر بدکاری کی تہمت لگائے، جب وہ بنی اسرائیل میں کھڑے ہو کر کتاب اللہ کی تلاوت کر رہے ہوں تو یہ عورت کہے کہ موسیٰ! تم نے میرے ساتھ ایسے ایسے کیا ہے۔ لہٰذا جب اس نے مجلس میں موسیٰ علیہ السلام کو یہ بات کہی تو وہ ڈر کر کانپ اٹھے اور دو رکعتیں پڑھ کر اس کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ”میں تمھیں اس اللہ کی قسم دیتا ہوں جس نے سمندر کو پھاڑا اور تمھیں فرعون سے نجات دی اور فلاں فلاں احسانات کیے کہ تم ہر صورت وہ شخص بتاؤ جس نے تمھیں اس بات پر آمادہ کیا ہے جو تم نے کہی۔“ اس نے کہا، جب آپ نے مجھ سے قسم دے کر پوچھا ہے تو قارون نے مجھے اتنا مال دیا ہے، اس شرط پر کہ میں آپ کو اس اس طرح کہوں اور میں اللہ سے معافی مانگتی ہوں اور توبہ کرتی ہوں۔ اس پر موسیٰ علیہ السلام سجدے میں گر گئے اور قارون کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے دعا کی۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں وحی کی کہ میں نے زمین کو حکم دے دیا ہے کہ اس کے متعلق تمھارا حکم مانے تو موسیٰ علیہ السلام نے زمین کو حکم دیا کہ اسے نگل جائے، تو ایسا ہی ہوا۔ ابن کثیر نے یہ واقعہ ابن عباس رضی اللہ عنھما سے نقل کیا ہے۔ سند اس کی اچھی بھی ہو تو یہ ان کا قول ہے، انھوں نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل نہیں فرمایا اور ظاہر ہے کہ اس واقعہ کے وقت ابن عباس رضی اللہ عنھما موجود نہیں تھے، بلکہ درمیان میں سیکڑوں ہزاروں سال کا فاصلہ ہے۔ اس لیے اس کے اسرائیلی روایت ہونے میں کوئی شک نہیں، جس پر یقین ممکن نہیں۔ خصوصاً اس لیے کہ اس میں قارون کا سمندر سے پار ہونا بھی مذکور ہے، جب کہ سورۂ مومن میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو فرعون، ہامان اور قارون کی طرف بھیجنے اور ان تینوں کے آپ کو جھٹلانے کا ذکر فرمایا ہے، پھر فرعون اور اس کے ساتھیوں کے متعلق فرمایا: « وَ حَاقَ بِاٰلِ فِرْعَوْنَ سُوْٓءُ الْعَذَابِ (45) اَلنَّارُ يُعْرَضُوْنَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَّ عَشِيًّا »[ المؤمن: ۴۵، ۴۶ ]”اور آلِ فرعون کو برے عذاب نے گھیر لیا۔ جو آگ ہے، وہ اس پر صبح و شام پیش کیے جاتے ہیں۔“ اسی طرح سورۂ عنکبوت (۳۹، ۴۰) میں ان تینوں کے تکبر کی وجہ سے ایمان نہ لانے اور اپنے گناہوں میں پکڑے جانے کا ذکر ہے۔ غرض قرآن مجید سے قارون کے ایمان لانے یا سمندر سے پار جانے کا کوئی اشارہ نہیں ملتا، بلکہ اس کے مسلسل جھٹلانے، تکبر کرنے اور اس کی پاداش میں زمین کے اندر دھنس جانے کا ذکر ہی ملتا ہے۔ ابن کثیر نے فرمایا: ”یہاں بہت سی اسرائیلیات ذکر کی گئی ہیں جن سے ہم نے پہلو تہی کی ہے۔“ کاش! ابن کثیر یہ اسرائیلیات بھی ذکر نہ کرتے جو انھوں نے ذکر کی ہیں۔
➍ فَمَا كَانَ لَهٗ مِنْ فِئَةٍ يَّنْصُرُوْنَهٗ …: یعنی اس وقت نہ کوئی جماعت تھی جو اس کی مدد کو پہنچتی، نہ وہ خود اپنے آپ کو بچا سکا۔ اس کے نوکر چاکر، ساتھی اور دوست اس کے کسی کام نہ آ سکے۔