(آیت 80) ➊ وَ قَالَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ …: وہ لوگ جنھیں علم دیا گیا تھا، کہنے لگے، افسوس تم پر! اللہ کی نافرمانی کے ساتھ حاصل ہونے والی اس زیب و زینت اور شان و شوکت کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ بدلا کہیں بہتر ہے جو وہ ایمان اور عمل صالح والوں کو عطا کرتا ہے۔ اس آیت میں اللہ کے ثواب سے مراد وہ رزق کریم ہے جو اللہ تعالیٰ کے احکام پر قائم رہ کر محنت و کوشش کے نتیجے میں دنیا اور آخرت میں حاصل ہوتا ہے۔
➋ وَ لَا يُلَقّٰىهَاۤ اِلَّا الصّٰبِرُوْنَ: صبر کی تین قسمیں ہیں، اللہ کے احکام پر صبر یعنی ان کا پابند رہنا، اس کی نافرمانی سے صبر یعنی اس سے بچتے رہنا اور مصیبتوں پر صبر۔ یعنی اللہ کا یہ ثواب صرف انھی لوگوں کو عطا کیا جاتا ہے جن میں اتنا صبر اور ثابت قدمی ہو کہ حلال طریقے اختیار کرنے پر مضبوطی کے ساتھ جمے رہیں، خواہ تھوڑا رزق ملے یا زیادہ، حرام سے قطعاً اجتناب کریں، خواہ اس سے کتنے فائدے مل رہے ہوں اور اس صدق و دیانت کی وجہ سے پیش آنے والی ہر مشکل اور مصیبت پر صبر کریں۔ دنیا کی تکالیف کو عارضی اور چند روزہ سمجھ کر کسی نہ کسی طرح گزار دیں اور اللہ تعالیٰ سے شکوہ شکایت کا کوئی لفظ زبان پر نہ لائیں۔ اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ ثواب، جو مومن کو دنیا میں ملتا ہے، تھوڑا ہو یا زیادہ، کافر کے مال و منال سے خواہ وہ کتنا زیادہ ہو، اس لیے بہتر ہے کہ مومن کو اللہ کی فرماں برداری کی خوشی کا احساس، اس کے عطا کردہ رزق پر صبرو قناعت اور اس کی وجہ سے ملنے والی سکون و اطمینان کی دولت کے مقابلے میں کافر کے اموال و اولاد اور زیب و زینت کی کوئی حقیقت ہی نہیں، جو اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق ان کے لیے بے شمار رنج و غم اور عذاب کا باعث ہیں، جیسا کہ فرمایا: « فَلَا تُعْجِبْكَ اَمْوَالُهُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُهُمْ اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُعَذِّبَهُمْ بِهَا فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَ تَزْهَقَ اَنْفُسُهُمْ وَ هُمْ كٰفِرُوْنَ »[ التوبۃ: ۵۵ ]”سو تجھے نہ ان کے اموال بھلے معلوم ہوں اور نہ ان کی اولاد، اللہ تو یہی چاہتا ہے کہ انھیں ان کے ذریعے دنیا کی زندگی میں عذاب دے اور ان کی جانیں اس حال میں نکلیں کہ وہ کافر ہوں۔“ اور آخرت میں اللہ کا ثواب کفار کی دنیوی زینت و مال سے اس لیے کہیں بہتر ہے کہ یہ عارضی ہے اور وہ باقی، اس میں بے شمار پریشانیوں اور رنج و غم کی آمیزش ہے اور وہ ہر قسم کے رنج و غم کی آمیزش سے پاک ہے۔