(آیت 72،71) ➊ قُلْ اَرَءَيْتُمْ اِنْ جَعَلَ اللّٰهُ عَلَيْكُمُ الَّيْلَ …:” اَرَءَيْتُمْ “ کا لفظی معنی ہے ”کیا تم نے دیکھا۔“ عرب اسے ”أَخْبِرُوْنِيْ“(مجھے بتاؤ) کے معنی میں استعمال کرتے ہیں، یعنی تم نے دیکھا ہے تو بتاؤ۔ اللہ تعالیٰ کی توحید کی ایک اور دلیل اور اس کی نعمتوں میں سے ایک اور نعمت، جس پر وہ حمد کا مستحق ہے، رات دن کا بدلنا ہے، جیسا کہ فرمایا: « اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّيْلِ وَ النَّهَارِ لَاٰيٰتٍ لِّاُولِي الْاَلْبَابِ »[ آل عمران: ۱۹۰ ]”بے شک آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے اور رات اور دن کے بدلنے میں عقلوں والوں کے لیے یقینا بہت سی نشانیاں ہیں۔“ فرمایا: ”یہ بتاؤ کہ اگر اللہ تعالیٰ تم پر قیامت کے دن تک ہمیشہ رات کر دے تو اللہ کے سوا کون سا معبود ہے جو تمھارے پاس کوئی روشنی لے آئے، خواہ کسی قسم کی ہو یا کتنی معمولی ہو۔“(بِضِيَآءٍ کی تنوین تنکیر و تقلیل کے لیے ہے) یہاں اللہ تعالیٰ نے ” اَفَلَا تَسْمَعُوْنَ “(تو کیا تم سنتے نہیں) ذکر فرمایا، جب کہ اگلی آیت میں ” اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ “(تو کیا تم نہیں دیکھتے) فرمایا۔ ابن ہبیرہ نے فرمایا: ”اس کی حکمت یہ ہے کہ سمع کی سلطنت رات کو ہوتی ہے اور بصر کی دن کو (رات کی تاریکی میں کان سنتے ہیں، آنکھ نہیں دیکھتی اور دن کی روشنی کے ذریعے سے آنکھ دیکھتی ہے، کان نہیں سنتے)۔“(بقاعی) یعنی رات کی اس تاریکی میں، جو ہمیشہ کے لیے قیامت تک مسلط ہو، یہ بات تمھارے کان سن سکتے ہیں کہ اللہ کے سوا کون سا معبود ہے جو تمھارے پاس کسی بھی طرح کی تھوڑی سے تھوڑی روشنی ہی لے آئے؟ تو کیا تم سنتے نہیں کہ سن کر سمجھو اور سمجھ کر اللہ کی توحید پر ایمان لے آؤ۔ اسی طرح اگر اللہ تعالیٰ تم پر قیامت کے دن تک ہمیشہ کے لیے دن کر دے تو اللہ کے سوا کون سا معبود ہے جو تمھارے پاس کوئی رات لے آئے جس میں تم راحت اور سکون پاسکو۔
➋ ان آیات میں رات کا ذکر دن سے پہلے فرمایا، کیونکہ رات کے بعد دن آنے کی نعمت بہت بڑی نعمت ہے۔ انسان کی معیشت کا سارا سلسلہ اسی پر موقوف ہے۔ علاوہ ازیں رات ایک طرح کا عدم ہے اور ضیاء وجود اور ظاہر ہے کہ عدم وجود سے پہلے ہے۔