(آیت 69)وَ رَبُّكَ يَعْلَمُ مَا تُكِنُّ صُدُوْرُهُمْ …: ”أَكَنَّ يُكِنُّ إِكْنَانًا“ چھپانا۔ پچھلی آیت میں مذکور اختیار اور قدرت علم کے بغیر ممکن ہی نہیں، اس لیے فرمایا: ”تیرا رب جانتا ہے جو ان کے سینے چھپاتے ہیں اور جو کچھ وہ ظاہر کرتے ہیں۔“ یعنی قدرت و اختیار کا مالک بھی وہی ہے اور پوشیدہ اور ظاہر کا علم بھی اسی کے پاس ہے۔ یہاں ایک سوال ہے کہ سینوں کی چھپی ہوئی بات جاننا تو واقعی اللہ تعالیٰ کا خاصہ ہے، مخلوق کو اس کی خبر نہیں ہو سکتی، مگر جو کچھ لوگ علانیہ کرتے یا کہتے ہیں اسے جاننا تو آدمی کے لیے بھی کچھ مشکل نہیں۔ جواب اس کا یہ ہے کہ سینوں کی چھپی ہوئی بات تو پھر بھی بعض اوقات کسی اشارے کنائے سے کچھ نہ کچھ معلوم ہو جاتی ہے، مگر ایک ہی وقت میں سب لوگ جو کر رہے ہیں یا کہہ رہے ہیں، اسے رب العالمین کے سوا کوئی نہیں جان سکتا۔ اگر کوئی سنے گا تو اسے ایک شور کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ دوسری جگہ فرمایا: « سَوَآءٌ مِّنْكُمْ مَّنْ اَسَرَّ الْقَوْلَ وَ مَنْ جَهَرَ بِهٖ وَ مَنْ هُوَ مُسْتَخْفٍۭ بِالَّيْلِ وَ سَارِبٌۢ بِالنَّهَارِ »[ الرعد: ۱۰ ]”برابر ہے تم میں سے جو بات چھپا کر کرے اور جو اسے بلند آواز سے کرے اور وہ جو رات کو بالکل چھپا ہوا ہے اور (جو) دن کو ظاہر پھرنے والا ہے۔“