(آیت 57) ➊ وَ قَالُوْۤا اِنْ نَّتَّبِعِ الْهُدٰى مَعَكَ …: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ لانے کا ایک بہانہ اور اس کا جواب اوپر گزر چکا ہے: « فَلَمَّا جَآءَهُمُ الْحَقُّ مِنْ عِنْدِنَا قَالُوْا لَوْ لَاۤ اُوْتِيَ مِثْلَ مَاۤ اُوْتِيَ مُوْسٰى اَوَ لَمْ يَكْفُرُوْا بِمَاۤ اُوْتِيَ مُوْسٰى مِنْ قَبْلُ »[القصص: ۴۸ ]” پھر جب ان کے پاس ہمارے ہاں سے حق آگیا تو انھوں نے کہا اسے اس جیسی چیزیں کیوں نہ دی گئیں جو موسیٰ کو دی گئیں؟ تو کیا انھوں نے اس سے پہلے ان چیزوں کا انکار نہیں کیا جو موسیٰ کو دی گئی تھیں۔“ اب اس آیت میں ان کے ایمان نہ لانے کا ایک اور بہانہ ذکر فرمایا۔ ” وَ قَالُوْۤا اِنْ نَّتَّبِعِ الْهُدٰى مَعَكَ … “ کا عطف گزشتہ آیت (۴۸)” قَالُوْا لَوْ لَاۤ اُوْتِيَ مِثْلَ مَاۤ اُوْتِيَ مُوْسٰى “ پر ہے، یعنی بعض مشرکین نے یہ کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ آپ حق پر ہیں، لیکن ہم ڈرتے ہیں کہ اگر ہم نے آپ کے ہمراہ ہدایت کی پیروی اختیار کر لی اور سارے عرب کی مخالفت مول لے لی تو وہ ہمیں ہماری سر زمین سے اچک لیں گے اور ایسی خاموشی سے یکلخت اٹھا لے جائیں گے کہ کسی کو خبر بھی نہ ہو گی۔
➋ اَوَ لَمْ نُمَكِّنْ لَّهُمْ حَرَمًا اٰمِنًا …: یہ ان کے عذر کا جواب ہے کہ جب پورے عرب میں ہر طرف بدامنی کا دور دورہ ہے، کسی کی جان محفوظ ہے نہ مال، دن دہاڑے لوگوں کو اٹھا کر لونڈی و غلام بنا لیا جاتا ہے، قبائل غربت و فقر کی وجہ سے ایک دوسرے سے دست و گریبان ہیں، تو کیا اس وقت ہم نے انھیں اس حرم میں جگہ نہیں دی جس کے امن و امان کی یہ حالت ہے کہ اس کے جانوروں تک کو کوئی نہیں ستاتا اور جسے وادی غیر ذی زرع ہونے کے باوجود اس قدر مرکزی حیثیت حاصل ہے کہ دنیا بھر کے پھل اور اموال تجارت اس کی طرف کھچے چلے آرہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اسے یہ حیثیت ہم نے بخشی ہے، تو جب ہم نے کفروشرک کے باوجود انھیں اس قدر امن و امان دیا اور اپنی نعمتوں سے نوازا تو کیا جب وہ ہمارا دین اختیار کریں گے تو ہم انھیں پناہ نہیں دیں گے؟ اور لوگوں کی دست درازی سے ان کی حفاظت نہیں کریں گے۔ نہیں، ایسا ہرگز نہیں ہو گا، لیکن اکثر لوگ نادان ہیں، جانتے نہیں۔ مزید دیکھیے سورۂ عنکبوت (۶۷)۔