(آیت 56) ➊ اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ …: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں کے بے حد خیر خواہ تھے اور ان کے ایمان لانے کی شدید خواہش رکھتے تھے۔ خصوصاً آپ کے دل میں اپنے قرابت داروں کے متعلق صلہ رحمی کے جذبے کی وجہ سے یہ خواہش اور بھی زیادہ تھی۔ اس مقام پر اہل کتاب کے ان لوگوں کا ذکر آیا جو کتاب اللہ کی تلاوت سنتے ہی ایمان لے آئے، تو قدرتی طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت کا اس بات سے متاثر ہونا لازمی تھا کہ نسبتاً دور والے ایمان لانے میں بازی لے گئے اور میرے قرابت دار حتیٰ کہ عزیز چچا ابو طالب اس نعمت سے محروم رہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی کہ اس معاملے میں آپ کی دعوت یا خیر خواہی میں کوئی کمی نہیں، بلکہ بات یہ ہے کہ ہدایت آپ کے اختیار میں نہیں، اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے اور وہی زیادہ جانتا ہے کہ ہدایت پانے والے کون ہیں، اہلِ کتاب ہیں یا عرب، اقارب ہیں یا دور کے رشتہ دار۔ (بقاعی) کسی اور کو علم ہی نہیں کہ ہدایت کسے دینی ہے، تو وہ ہدایت کیا دے گا؟ تمام مفسرین کا اتفاق ہے کہ یہ آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب کے بارے میں اتری۔
➋ سعید بن مسیب کے والد بیان کرتے ہیں: [ لَمَّا حَضَرَتْ أَبَا طَالِبٍ الْوَفَاةُ جَاءَهُ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ فَوَجَدَ عِنْدَهُ أَبَا جَهْلٍ وَعَبْدَ اللّٰهِ بْنَ أَبِيْ أُمَيَّةَ بْنِ الْمُغِيْرَةِ، فَقَالَ أَيْ عَمِّ! قُلْ لاَ إِلٰهَ إِلاَّ اللّٰهُ، كَلِمَةً أُحَاجُّ لَكَ بِهَا عِنْدَ اللّٰهِ، فَقَالَ أَبُوْ جَهْلٍ وَعَبْدُ اللّٰهِ بْنُ أَبِيْ أُمَيَّةَ أَتَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ؟ فَلَمْ يَزَلْ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْرِضُهَا عَلَيْهِ، وَيُعِيْدَانِهِ بِتِلْكَ الْمَقَالَةِ حَتّٰي قَالَ أَبُوْ طَالِبٍ آخِرَ مَا كَلَّمَهُمْ عَلٰی مِلَّةِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، وَأَبٰی أَنْ يَّقُوْلَ لاَ إِلٰهَ إِلاَّ اللّٰهُ، قَالَ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاللّٰهِ! لَأَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ مَا لَمْ أُنْهَ عَنْكَ، فَأَنْزَلَ اللّٰهُ: «مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ يَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِكِيْنَ» وَ أَنْزَلَ اللّٰهُ فِيْ أَبِيْ طَالِبٍ، فَقَالَ لِرَسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ: « اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَآءُ» ][ بخاري، التفسیر، باب قولہ: «إنک لا تھدی من أحببت…» ۴۷۷۲ ]”جب ابو طالب کی وفات کا وقت آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس آئے اور اس کے پاس ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ بن مغیرہ کو پایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے چچا! تو ”لاالٰہ الا اللہ“ کہہ دے، یہ ایسا کلمہ ہے جس کے ذریعے سے میں تیرے لیے اللہ کے پاس جھگڑا کروں گا۔“ تو ابو جہل اور عبداللہ بن ابی امیہ نے کہا: ”کیا تو عبدالمطلب کی ملت سے بے رغبتی کرتا ہے۔“ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے سامنے یہی بات پیش کرتے رہے اور وہ دونوں اپنی وہی بات دہراتے رہے، حتیٰ کہ ابوطالب نے ان سے آخری بات جو کی وہ یہ تھی: ”عبد المطلب کی ملت پر (مر رہا ہوں)۔“ اور اس نے ”لا الٰہ الا اللہ“ کہنے سے انکار کر دیا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی قسم! میں ہر صورت تیرے لیے استغفار کروں گا، جب تک مجھے منع نہ کر دیا گیا۔“ تو اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی: « مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ يَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِكِيْنَ وَ لَوْ كَانُوْۤا اُولِيْ قُرْبٰى »[ التوبۃ: ۱۱۳ ]”اس نبی اور ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے، کبھی جائز نہیں کہ وہ مشرکوں کے لیے بخشش کی دعا کریں، خواہ وہ قرابت دار ہوں۔“ اور اللہ عزوجل نے ابوطالب کے بارے میں یہ آیت نازل فرمائی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرمایا: « اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَآءُ »”بے شک تو ہدایت نہیں دیتا جسے تو دوست رکھے اور لیکن اللہ ہدایت دیتا ہے جسے چاہتا ہے۔“
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا سے کہا: ”تو ”لا الٰہ الا اللہ“ کہہ دے، میں قیامت کے دن تیرے لیے اس کی شہادت دوں گا۔“ اس نے کہا: ”اگر یہ نہ ہوتا کہ قریش کے لوگ مجھے عار دلائیں گے کہ اسے اس پر (موت کی) گھبراہٹ نے آمادہ کیا تو میں اس کے ساتھ تیری آنکھ ٹھنڈی کر دیتا۔“ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: « اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَآءُ »[ مسلم، الإیمان، باب الدلیل علٰی صحۃ إسلام …: 25/42 ]
➌ بعض لوگوں کو اصرار ہے کہ ابوطالب اسلام پر فوت ہوا، ان کا کہنا یہ ہے کہ عبدالمطلب ملتِ ابراہیم پر تھے اور ”عَلٰي مِلَّةِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ“ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ”میں ملتِ ابراہیم پر فوت ہو رہا ہوں“ لہٰذا وہ مسلمان تھا۔ مگر حدیث کے الفاظ ”اور اس نے لا الٰہ الا اللہ کہنے سے انکار کر دیا“ کے بعد اس تاویل کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔
➍ ابو طالب کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بے حد محبت تھی، اس نے ہر طرح سے آپ کی حفاظت اور آپ کا دفاع کیا، مگر اس کی محبت طبعی یعنی قرابت اور نسب کی وجہ سے تھی، ایمانی محبت نہ تھی، اس لیے ہدایت نصیب نہ ہو سکی۔
➎ اگرچہ یہ آیت ابوطالب کے بارے میں اتری مگر اصولی طور پر اس کا حکم عام ہے اور اس میں ہر وہ شخص شامل ہے جس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش تھی کہ وہ ایمان لے آئے، مگر اس نے کفر پر مرنے کو ترجیح دی۔ مزید دیکھیے سورۂ توبہ (۱۱۳)۔
➏ یہاں فرمایا: « اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ » اور دوسری جگہ فرمایا: « وَ اِنَّكَ لَتَهْدِيْۤ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ »[ الشورٰی: ۵۲ ]”اور بلاشبہ تو یقینا سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔“ پہلی آیت میں ہدایت سے مراد منزلِ مقصود پر پہنچا دینا ہے۔ یہ صرف اللہ تعالیٰ کا کام ہے، یہ کسی اور کا کام نہیں۔ دوسری آیت میں ہدایت سے مراد راستہ دکھانا ہے، یہ کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی سر انجام دیتے تھے۔