تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 53) وَ اِذَا يُتْلٰى عَلَيْهِمْ قَالُوْۤا اٰمَنَّا بِهٖۤ: یعنی جب ان کے سامنے قرآن کی تلاوت ہوتی ہے تو وہ کہتے ہیں، ہم اس پر ایمان لے آئے۔

اِنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّنَاۤ: إِنَّ علت بیان کرنے کے لیے ہوتا ہے، مطلب یہ کہ ہم اس پر ایمان لے آئے، کیونکہ یہ ہمارے رب کی طرف سے حق ہے۔

اِنَّا كُنَّا مِنْ قَبْلِهٖ مُسْلِمِيْنَ: یہ بھی ایمان لانے کی ایک علت ہے، یعنی ہم سنتے ہی اس پر اس لیے ایمان لے آئے کہ ہم اس سے پہلے ہی مسلم تھے۔ تورات و انجیل کی بنیادی تعلیم وہی تھی جو قرآن کی ہے، جب ہم نے دیکھا کہ یہ تو وہی ہے تو ہم اس پر ایمان لے آئے۔ اس سے معلوم ہوا کہ پہلی امتوں کا دین اسلام تھا اور وہ بھی مسلم تھے، جیسا کہ فرمایا: « مِلَّةَ اَبِيْكُمْ اِبْرٰهِيْمَ هُوَ سَمّٰىكُمُ الْمُسْلِمِيْنَ مِنْ قَبْلُ وَ فِيْ هٰذَا » [ الحج: ۷۸ ] اپنے باپ ابراہیم کی ملت کے مطابق، اسی نے تمھارا نام مسلمین رکھا، اس سے پہلے اور اس (کتاب) میں بھی۔ یہ کہنا کہ مسلمین صرف امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام ہے، درست نہیں۔ اِنَّا كُنَّا مِنْ قَبْلِهٖ مُسْلِمِيْنَ کا معنی یہ بھی ہے کہ تورات و انجیل میں اس نبی اور اس کتاب کی پیش گوئیاں پڑھ کر ہم تو اس سے پہلے ہی اس پر ایمان رکھتے تھے اور دل و جان سے مسلم یعنی اس کے تابع فرمان تھے۔



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.