تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 50) فَاِنْ لَّمْ يَسْتَجِيْبُوْا لَكَ فَاعْلَمْ …: پھر اگر وہ تمھارا یہ مطالبہ قبول نہ کریں تو جان لو کہ ان کے پاس کوئی دلیل یا حجت نہیں، بلکہ وہ صرف اپنی خواہشات کی پیروی کر رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ یہ مطالبہ قبول کر سکتے ہیں، بلکہ یہ بات ان کے عجز کے اظہار کے لیے کہی جا رہی ہے، کیونکہ سب جانتے ہیں کہ ایسی کتاب کہاں سے آ سکتی ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے فرمایا: « فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا وَ لَنْ تَفْعَلُوْا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِيْ وَ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ » [ البقرۃ: ۲۴ ] پھر اگر تم نے ایسا نہ کیا اور نہ کبھی کرو گے تو اس آگ سے بچ جاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں۔

وَ مَنْ اَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَوٰىهُ بِغَيْرِ هُدًى مِّنَ اللّٰهِ: اور اس شخص سے بڑھ کر کون گمراہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کی پیروی کرے۔ اس آیت میں تقلید کا زبردست رد ہے، کیونکہ تقلید کی تعریف ہے: أَخْذُ قَوْلِ الْغَيْرِ بِلاَ دَلِيْلٍ کہ اللہ اور اس کے رسول کے غیر کی بات کو بلا دلیل لے لینا۔ اللہ کی طرف سے آنے والی ہدایت دلیل ہے، جو قرآن اور سنت ہے۔ اس کو چھوڑ کر جس کی بھی بات مانی جائے وہ خواہش کی پیروی ہے، جس سے بڑی گمراہی کوئی نہیں۔ رازی نے بھی اس آیت کو تقلید کے رد کی دلیل قرار دیا ہے۔

اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ: یہ کہنے کے بجائے کہ اللہ ایسے لوگوں کو جو خواہش کی پیروی کریں، ہدایت نہیں دیتا، فرمایا، اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا، یعنی اللہ کی ہدایت کے بجائے اپنی خواہش کی پیروی کرنے والے ظالم ہیں اور اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیا کرتا، کیونکہ وہ ظلمت میں رہنا پسند کرتے ہیں اور جو چیز جہاں رکھنی چاہیے وہاں رکھنے کے بجائے دوسری جگہ رکھتے ہیں (ظلم کا یہی معنی ہے) اور جو اندھیرے میں رہنے پر اصرار کرے اسے ہدایت کی روشنی کیسے نصیب ہو سکتی ہے۔



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.