تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 45) وَ لٰكِنَّاۤ اَنْشَاْنَا قُرُوْنًا فَتَطَاوَلَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ: یعنی آپ اس وقت موجود نہیں تھے، لیکن ہم نے موسیٰ علیہ السلام سے لے کر آپ تک بہت سی نسلیں اور قومیں پیدا کیں، جن پر سیکڑوں ہزاروں سال کی لمبی مدت گزر گئی۔ جس سے اصل واقعات اور دین کے صحیح احکام اپنی اصل صورت پر باقی نہ رہے، لہٰذا ضرورت تھی کہ نئے پیغمبر کے ذریعے سے دین اور شریعت کو صحیح، مکمل اور آخری صورت میں پیش کیا جائے، اس لیے ہم نے آپ کو نبوت سے سرفراز فرمایا اور یہ تمام واقعات وحی کے ذریعے سے آپ کو بتائے۔ یا یہ مطلب ہے کہ لمبی مدتیں گزرنے کی وجہ سے اہل عرب نبوت و رسالت کو بالکل ہی بھلا بیٹھے تھے، اس لیے انھیں آپ کی نبوت پر تعجب ہو رہا ہے اور وہ اسے ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

وَ مَا كُنْتَ ثَاوِيًا فِيْۤ اَهْلِ مَدْيَنَ …: یعنی موسیٰ علیہ السلام کو مدین جا کر جو واقعات پیش آئے، ان کے اتنی صحت اور خوبی کے ساتھ بیان کرنے سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت آپ وہاں رہائش رکھتے تھے، سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے، یا ان سے سیکھ رہے تھے اور انھیں اس طرح ہماری آیات پڑھ کر سنا رہے تھے جیسے اب اہل مکہ کو سناتے ہیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ آپ اس وقت اہل مدین میں مقیم نہیں تھے کہ انھیں ہماری آیات پڑھ کر سنا رہے ہوں۔ بعض مفسرین نے تَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِنَا کو حال بنایا ہے اور عَلَيْهِمْ سے مراد اہل مکہ لیے ہیں۔ اس صورت میں معنی یہ ہو گا کہ اہل مکہ کے سامنے موسیٰ علیہ السلام اور اس بزرگ کے متعلق ہماری آیات کی تلاوت کرتے وقت تو اہل مدین میں مقیم نہیں تھا کہ سب کچھ دیکھ کر انھیں سنا رہا ہو، بلکہ یہ سب کچھ ہماری وحی کے ذریعے سے ہوا۔

وَ لٰكِنَّا كُنَّا مُرْسِلِيْنَ: لیکن بات یہ ہے کہ ہم ہمیشہ سے پیغمبر بھیجتے رہے ہیں، جو لوگوں کو غفلت سے بیدار کرتے اور ہمارے احکام سے آگاہ کرتے رہے۔ اب اسی عادت کے مطابق ہم نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا اور آپ پر یہ آخری کتاب نازل فرمائی، تاکہ لمبی مدتیں گزرنے کے بعد لوگ پھر صحیح دین اور اصل واقعات سے آگاہ ہو جائیں۔



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.