(آیت 38) ➊ وَ قَالَ فِرْعَوْنُ يٰۤاَيُّهَا الْمَلَاُ مَا عَلِمْتُ لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرِيْ: سرکش اور مغرور فرعون پر موسیٰ علیہ السلام کی اتنی نرم اور حلم والی بات کا کچھ اثر نہیں ہوا، بلکہ اس نے اپنے سرداروں کو مخاطب کر کے لاف زنی شروع کر دی کہ ”اے سردارو! میں نے اپنے سوا تمھارا کوئی معبود نہیں جانا۔“ اس سے فرعون کے تکبر کا اور اس کی حماقت کا اندازہ ہوتا ہے۔ گویا وہ انھیں کہہ رہا تھا کہ مجھے معلوم نہیں کہ میرے سوا تمھارا کوئی معبود ہو اور جو مجھے معلوم نہیں وہ ہے ہی نہیں۔ بتائیے اس سے بڑی بے وقوفی کیا ہو گی۔ تمھیں تو یہ تک معلوم نہ ہو سکا کہ تمھارے گھر میں کس کی پرورش ہو رہی ہے؟ اس کی قوم کے سرداروں نے بھی اس کی اس یا وہ گوئی پر خاموش رہ کر اس کی تائید کی، جو ان کی جہالت اور بزدلی کی انتہا تھی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: « فَاسْتَخَفَّ قَوْمَهٗ فَاَطَاعُوْهُ اِنَّهُمْ كَانُوْا قَوْمًا فٰسِقِيْنَ »[ الزخرف: ۵۴ ]”غرض اس نے اپنی قوم کو ہلکا (بے وزن) کر دیا تو انھوں نے اس کی اطاعت کر لی، یقینا وہ نافرمان لوگ تھے۔“
➋ استاذ محمد عبدہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ”شاہ صاحب رحمہ اللہ نے یہاں ”الٰہ“(خدا) کا ترجمہ حاکم کیا ہے اور یہی بات صحیح معلوم ہوتی ہے، کیونکہ فرعون اپنے آپ کو ارض و سماء کا خالق اور معبود نہیں سمجھتا تھا، بلکہ وہ خود بہت سے دیوتاؤں کی پرستش کرتا تھا۔ پس فرعون کا مطلب یہ تھا کہ میں ہی تمھارا مطاع اور حاکم مطلق ہوں، میرے سوا کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا، جس کی فرماں برداری کی جائے۔“(اشرف الحواشی) فرعون کے رب اعلیٰ ہونے کے دعوے کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ اعراف (۱۲۷) کی تفسیر۔
➌ فَاَوْقِدْ لِيْ يٰهَامٰنُ عَلَى الطِّيْنِ …: اپنے اس دعوے کے ساتھ کہ مجھے اپنے سوا تمھارا کوئی الٰہ معلوم نہیں، فرعون نے یہ دکھانے کے لیے کہ واقعی اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اپنے وزیر ہامان کو حکم دیا کہ وہ پکی اینٹیں تیار کرے۔ یہاں قرآن مجید کے الفاظ کے انتخاب پر توجہ فرمائیں، عربی زبان میں پکی اینٹ کے لیے ”آجُرٌّ، طُوْبٌ “ اور ” قَرْمَدٌ “ وغیرہ الفاظ استعمال ہوتے ہیں، مگر ان سب کی ادائیگی میں ایک قسم کا ثقل پایا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے بجائے فرمایا: « فَاَوْقِدْ لِيْ يٰهَامٰنُ عَلَى الطِّيْنِ »”تو اے ہامان! میرے لیے مٹی پر آگ جلا“ اس جملے میں پختہ اینٹ بنانے کا طریقہ بھی بیان ہو گیا، ہامان کو اس کی تیاری کا حکم بھی اور اس جملے کے کسی لفظ میں کسی قسم کا کوئی ثقل بھی نہیں آیا، سب حروف متناسب اور سلیس ہیں۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ پختہ اینٹ بنانے کی ابتدا ہامان نے فرعون کے حکم سے کی، مگر اس کی کوئی پختہ دلیل نہیں کہ اس سے پہلے پختہ اینٹیں نہیں بنتی تھیں۔
➍ فَاجْعَلْ لِّيْ صَرْحًا …: لوگوں کو بے وقوف بنانے کے لیے اس نے یہ حکم دیا کہ پختہ اینٹیں تیار کر کے میرے لیے ایک بلند و بالا محل بنا، تاکہ میں اس پر چڑھ کر موسیٰ کے رب کو دیکھوں، کیونکہ میں تو اسے جھوٹا ہی گمان کرتا ہوں۔ فرعون کی یہ بات سورۂ مومن (۳۶، ۳۷) میں بھی بیان ہوئی ہے۔ قرآن مجید یا حدیث میں یہ ذکر نہیں کہ اس نے وہ محل بنایا یا نہیں۔ بغوی نے ذکر کیا ہے کہ ہامان نے کاریگر اور مزدور جمع کیے، حتیٰ کہ پچاس ہزار مستری جمع ہو گئے۔ مزدور اور کارکن اس کے علاوہ تھے۔ اسی طرح اینٹیں پکانے والے، چونا بنانے والے، لکڑی اور لوہے کا کام کرنے والے بھی ان کے علاوہ تھے۔ ان سب نے وہ عمارت بنائی جو اتنی بلند تھی کہ مخلوق میں سے کسی نے اتنی بلند عمارت نہیں بنائی۔ جب وہ فارغ ہوئے تو فرعون اس کے اوپر چڑھا اور اس نے آسمان کی طرف تیر پھینکنے کا حکم دیا، وہ واپس آیا تو خون سے لت پت تھا۔ کہنے لگا، میں نے موسیٰ کے معبود کو قتل کر دیا۔ فرعون گھوڑے کے ساتھ اس پر چڑھا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے سورج غروب ہونے کے قریب جبریل علیہ السلام کو بھیجا، انھوں نے اس عمارت پر اپنا پر مارا اور اسے تین ٹکڑوں میں کاٹ دیا۔ ایک ٹکڑا فرعون کے لشکر پر گرا، جس نے ان میں سے دس لاکھ آدمیوں کو ہلاک کر دیا، ایک ٹکڑا سمندر میں گرا اور ایک ٹکڑا مغرب میں جا گرا اور اس عمارت کے بنانے میں جس نے کچھ بھی کام کیا تھا، کوئی باقی نہ رہا۔ طبری نے اسے اختصار کے ساتھ سدی سے بیان کیا ہے۔ قرطبی نے اسے ذکر کر کے اس کے کمزور ہونے کی طرف یہ کہہ کر اشارہ کیا ہے: ”وَاللّٰهُ أَعْلَمُ بِصِحَّةِ ذٰلِكَ“ کہ اس روایت کی صحت کے بارے میں اللہ ہی بہتر جانتے ہیں۔ اسرائیلی روایات کی یہی مصیبت ہے کہ ان کی کوئی سند ہوتی ہے نہ ان کا سرا کہیں جا کر ملتا ہے۔ اس زمانے میں صرف مصر کے اندر دس لاکھ کے لشکر کی بات بھی قابل توجہ ہے۔ حقیقت یہی معلوم ہوتی ہے اور اکثر مفسرین نے اسی کو اختیار کیا ہے کہ یہ فرعون کی محض گیدڑ بھبکی تھی، جس کے ساتھ وہ اپنی قوم کو بے وقوف بنا رہا تھا۔ اینٹیں بنانے کا حکم بھی اس نے معاملے کو لٹکانے کے لیے دیا، ورنہ مصری لوگوں کو اینٹوں کی ضرورت ہی نہ تھی، جو لوگ اہرام مصر اتنے بڑے بڑے پتھروں سے بنا سکتے ہیں، جن میں سے ہر پتھر کا حجم عام کمرے کے مکمل حجم کے برابر ہے، انھیں اینٹیں پکانے کی ضرورت کیا تھی۔ یہ صرف وقت گزاری کی کارروائی تھی، ویسے بلند و بالا پہاڑوں کے ہوتے ہوئے اینٹوں سے عمارت بنانے کا حکم دینا، جو کسی طرح بھی پہاڑوں جتنی بلند نہیں ہو سکتی، محض دھوکا تھا۔ جیسا کہ اس نے اپنے سرداروں سے کہا تھا: « ذَرُوْنِيْۤ اَقْتُلْ مُوْسٰى وَ لْيَدْعُ رَبَّهٗ »[ المؤمن: ۲۶ ]”(اور فرعون نے کہا) مجھے چھوڑ دو کہ میں موسیٰ کو قتل کر دوں اور وہ اپنے رب کو پکارے۔“ بندہ پوچھے تمھیں کس نے پکڑا ہوا ہے، جسے چھوڑنے کے لیے کہہ رہے ہو! ہمت ہے تو ہاتھ بڑھا کر تو دیکھو۔
➎ مفسر عبدالرحمان کیلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ”یہ بات دراصل اس نے اپنی رعایا کو اُلّو بنانے اور ان سے دعوت حق کے اثر کو زائل کرنے کے لیے کہی تھی اور یہ بالکل ایسی ہی بات تھی جیسی چند برس پیشتر روس نے، جو ایک کمیونسٹ اور دہریت پسند ملک ہے، کہی تھی۔ اس نے اپنا ایک سپوتنک طیارہ چھوڑا جو چند لاکھ میل بلندی تک پہنچا تو واپسی پر ان لوگوں نے یہ دعویٰ کر دیا کہ ہم اتنے لاکھ میل کی بلندی تک ہو آئے ہیں، مگر ہمیں مسلمانوں کا خدا کہیں نہیں ملا۔ یعنی ان احمقوں کا یہ خیال تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ کی ہستی موجود ہے تو یہی چند لاکھ میلوں کی بلندی پر ہی ہو سکتی ہے اور اس واقعہ کو بھی انھوں نے لوگوں کو اُلّو بنانے کے لیے ہی سائنٹفک دلیل کے طور پر پیش کیا، حالانکہ یہی لوگ جب کائنات کی وسعت کا حال بتاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ سورج ہماری زمین سے ۹ کروڑ ۳۰ لاکھ میل دور ہے اور زمین اس کے گرد گردش کر رہی ہے۔ یہ اس سورج کا تیسرا سیارہ ہے اور سورج کے گرد نواں سیارہ پلوٹو گردش کرتا ہے، جو سورج سے ۳ ارب ۶۸ کروڑ میل کے فاصلے پر ہے۔ نیز یہ کہ اس کائنات میں نظام شمسی میں سورج ایک ستارہ یا ثابت ہے اور کائنات میں ایسے ہزاروں ستارے یا ثوابت مشاہدہ کیے جا چکے ہیں اور یہ ستارے یا سورج ہمارے سورج سے جسامت کے لحاظ سے بہت بڑے ہیں۔ ہمارے سورج سے بہت دور تقریباً ۴۰۰ کھرب کلومیٹر کے فاصلے پر ایک سورج موجود ہے، جو ہمیں محض روشنی کا ایک چھوٹا سا نقطہ معلوم ہوتا ہے۔ اس کا نام قلب عقرب ہے۔ اگر اسے اٹھا کر ہمارے نظام شمسی میں رکھا جائے تو سورج سے مریخ تک کا تمام علاقہ اس میں پوری طرح سما جائے گا، جبکہ مریخ کا سورج سے فاصلہ ۱۴ کروڑ ۱۵ لاکھ میل ہے، گویا قلب عقرب کا قطر ۲۸ کروڑ ۳۰ لاکھ میل کے لگ بھگ ہے۔ پھر جب کائنات میں ہر سو بکھرے سیاروں کے فاصلے کھربوں میل کے عدد سے بھی تجاوز کر گئے تو ہیئت دانوں نے نوری سال کی اصطلاح ایجاد کی، جس کا مطلب یہ ہے کہ روشنی ایک لاکھ ۸۶ ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کرتی ہے۔ اس لحاظ سے ہماری زمین سے سورج کا فاصلہ جو حقیقتاً ۹ کروڑ ۳۰ لاکھ میل ہے، روشنی کا یہ سفر آٹھ منٹ کا سفر ہے، گویا سورج ہم سے آٹھ نوری منٹ کے فاصلے پر ہے۔ اب کائنات میں ایسے سیارے بھی موجود ہیں جو ایک دوسرے سے ہزارہا بلکہ لاکھوں نوری سالوں کے فاصلے پر ہیں۔
یہ تو ہے کائنات کی وسعت کا وہ مطالعہ جو انسان کر چکا ہے اور جو ابھی انسان کے علم میں نہیں آسکا، وہ اللہ بہتر جانتا ہے۔ اب کیا وہ ہستی جو ان ساری چیزوں کی خالق اور ان سب سے اوپر ہے، کیا یہ احمق اسے چند لاکھ میلوں کی بلندی پر پالیں گے؟ نیز وہ سمجھ رہے ہیں جیسے وہ کوئی مادی جسم ہے، جو ان کی گرفت میں آسکتا ہے۔ [قٰتَلَھُمُ اللّٰہُ اَنّٰی یُوْفَکُوْنَ] اس سے بڑی حماقت ان روسی داناؤں نے یہ کی کہ اپنی سائنٹفک تحقیق کو اپنے سکولوں میں پڑھانا شروع کر دیا، تو ایک لڑکی کے منہ سے بے ساختہ یہ جملہ نکل گیا کہ جہاں تک سپوتنک میزائل پہنچا تھا اللہ تعالیٰ اس سے بہت اوپر تھا۔ فرعون نے بھی ہامان سے ایسی ہی بات کہی تھی، جس سے لوگوں کو اللہ کی ہستی کے بارے میں شک میں مبتلا کر دے، ورنہ عملاً نہ ہامان نے کوئی ایسا اونچا محل یا مینار بنایا تھا اور نہ ہی فرعون کا یہ مقصد تھا۔“
➏ وَ اِنِّيْ لَاَظُنُّهٗ مِنَ الْكٰذِبِيْنَ: یعنی موسیٰ جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ آسمانوں پر رب ہے جو ساری کائنات کو پالنے والا ہے، میں تو اسے جھوٹا سمجھتا ہوں۔