(آیت 37) ➊ وَ قَالَ مُوْسٰى رَبِّيْۤ اَعْلَمُ بِمَنْ جَآءَ بِالْهُدٰى …: مفسرین کہتے ہیں کہ بظاہر فرعون کی بات نقل کرنے کے بعد موسیٰ علیہ السلام کی بات نقل کرنے کے لیے ” قَالَ “ ہی کافی تھا، ”واؤ“ کی ضرورت نہ تھی، مگر دونوں کی بات کا موازنہ کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ”واؤ“ کا ذکر کیا کہ فرعون نے یہ کہا اور موسیٰ علیہ السلام نے یہ کہا۔
➋ موسیٰ علیہ السلام کا یہ کلام اللہ تعالیٰ کی اس تلقین پر عمل کا ایک خوب صورت نمونہ ہے، جو اللہ تعالیٰ نے انھیں فرعون کی طرف بھیجتے ہوئے کی تھی، فرمایا: « فَقُوْلَا لَهٗ قَوْلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّهٗ يَتَذَكَّرُ اَوْ يَخْشٰى »[ طٰہٰ: ۴۴ ]”پس اس سے بات کرو، نرم بات، اس امید پر کہ وہ نصیحت حاصل کرلے، یا ڈر جائے۔“ فرعون کی ہٹ دھرمی کے جواب میں انھوں نے اسے جھوٹا کہنے یا کوئی سخت بات کرنے کے بجائے نرم لہجہ اختیار کرتے ہوئے فرمایا کہ میرا رب زیادہ جاننے والا ہے کہ اس کے پاس سے ہدایت لے کر کون آیا ہے اور اس گھر کا اچھا انجام کس کا ہوتا ہے؟ ہاں! اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ ظالم لوگ کبھی فلاح نہیں پاتے۔ یہ اس طرح کی بات ہے، جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: « قُلْ مَنْ يَّرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ قُلِ اللّٰهُ وَ اِنَّاۤ اَوْ اِيَّاكُمْ لَعَلٰى هُدًى اَوْ فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ (24) قُلْ لَّا تُسْـَٔلُوْنَ عَمَّاۤ اَجْرَمْنَا وَ لَا نُسْـَٔلُ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ (25) قُلْ يَجْمَعُ بَيْنَنَا رَبُّنَا ثُمَّ يَفْتَحُ بَيْنَنَا بِالْحَقِّ وَ هُوَ الْفَتَّاحُ الْعَلِيْمُ »[ سبا: ۲۴ تا ۲۶ ]”کہہ تمھیں آسمانوں اور زمین سے رزق کون دیتا ہے؟ کہہ دے اللہ۔ اور بے شک ہم یا تم ضرور ہدایت پر ہیں، یا کھلی گمراہی میں ہیں۔ کہہ دے نہ تم سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا جو ہم نے جرم کیا اور نہ ہم سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا جو تم کرتے ہو۔ کہہ ہم سب کو ہمارا رب جمع کرے گا، پھر ہمارے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کرے گا اور وہی خوب فیصلہ کرنے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔“
➌ عَاقِبَةُ الدَّارِ: آلوسی نے فرمایا: ” الدَّارِ “(اس گھر) سے مراد دنیا ہے، اس کا اچھا انجام ایسا خاتمہ ہے جو انسان کو اللہ کے فضل و کرم کے ساتھ جنت میں لے جائے۔“