(آیت 27) ➊ قَالَ اِنِّيْۤ اُرِيْدُ اَنْ اُنْكِحَكَ اِحْدَى ابْنَتَيَّ هٰتَيْنِ …: باپ نے بیٹی کی رائے سے اتفاق کر لیا، مگر جوان بیٹیوں کی موجودگی میں ایک غیر محرم مرد کو گھر میں رکھنا مناسب نہیں تھا، اس لیے اس مرد دانا نے فیصلہ کیا کہ ایک بیٹی کا اس صالح جوان کے ساتھ نکاح کر کے اسے مزدور کے طور پر گھر میں رکھ لے۔ چنانچہ اس نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا: « اِنِّيْۤ اُرِيْدُ »”یقینا میں ارادہ رکھتا ہوں۔“ اہل علم فرماتے ہیں، اس بزرگ نے ”إِنَّ“ کے ساتھ تاکید اس لیے کی کہ عام طور پر لوگ کسی اجنبی جوان کو جو مالی لحاظ سے بھی فقیر ہو، رشتہ دینے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ اس لیے اس نے کہا، یقینا میں ارادہ رکھتا ہوں کہ اپنی ان دو بیٹیوں میں سے ایک کا نکاح تجھ سے کر دوں، اس شرط پر کہ تو آٹھ سال میری مزدوری کرے گا…۔
➋ اس سے معلوم ہوا کہ کسی صالح آدمی کو اپنی بیٹی کے رشتے کی پیش کش خود کر دینے میں کوئی مضائقہ نہیں، بلکہ ایسا ہونا چاہیے۔ بے شمار لڑکیاں اس لیے نکاح سے محروم بیٹھی ہیں کہ ان کے والد انتظار میں ہیں کہ کوئی ہم سے رشتہ پوچھے، جبکہ لڑکوں کے والدین انکار کے خوف سے رشتہ مانگنے کی جرأت نہیں کرتے۔ نتیجہ اس کا لڑکے لڑکیوں دونوں کا نکاح سے محروم رہنا ہے۔ صحابہ کرام میں سے عمر رضی اللہ عنہ کا عمل اس کا بہترین نمونہ ہے۔ ان کی بیٹی حفصہ رضی اللہ عنھا خُنیس بن حذافہ رضی اللہ عنہ کے فوت ہونے سے بیوہ ہو گئی، جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بدری صحابہ میں سے تھے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”میں عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اور انھیں حفصہ کا رشتہ پیش کیا، انھوں نے کہا، میں اس بارے میں سوچوں گا، کچھ راتیں گزریں تو مجھے ملے اور کہنے لگے: ”میری رائے یہی ٹھہری ہے کہ میں ان دنوں نکاح نہ کروں۔“ عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ”پھر میں ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ سے ملا اور ان سے کہا: ”اگر آپ چاہیں تو میں حفصہ بنت عمر کا نکاح آپ سے کر دوں۔“ ابوبکر خاموش رہے، مجھے کچھ جواب نہیں دیا، میں دل میں ان پر عثمان سے بھی زیادہ ناراض ہوا۔ چند راتیں گزریں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے نکاح کا پیغام بھیج دیا، تو میں نے حفصہ کا نکاح آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کر دیا۔“[ بخاري، النکاح، باب عرض الإنسان ابنتہ أو أختہ علی أھل الخیر: ۵۱۲۲ ] دیکھیے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر غیرت مند کون ہو گا، مگر اپنی بیٹی کے رشتے کی پیش کش خود کر رہے ہیں۔
➌ بعض لوگ اس واقعہ سے استدلال کرتے ہیں کہ نکاح میں لڑکی کا مہر یہ ہو سکتا ہے کہ خاوند اس کے والد کی مزدوری کرے، مگر یہ استدلال درست نہیں، کیونکہ مہر عورت کا حق ہے نہ کہ اس کے باپ کا۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن کے بیان میں صرف نکاح کے ارادے اور اس کی شرط کا ذکر ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کم از کم آٹھ سال اپنے سسر کے ساتھ رہیں گے، اس سے پہلے اپنی بیوی کو لے کر نہیں جائیں گے۔ اگر یہ عقد نکاح ہوتا تو اس میں دو لڑکیوں میں سے ایک لڑکی کی تعیین ہوتی اور ارادے کے الفاظ کے بجائے یہ الفاظ ہوتے کہ میں نے اپنی فلاں لڑکی کا نکاح اتنے مہر میں تمھارے ساتھ کیا۔ قرآن نے نکاح کے لیے ابتدائی گفتگو اور والد کی شرط کا ذکر کیا ہے، عقد نکاح اور مہر وغیرہ کی تفصیل کا ذکر چھوڑ دیا ہے، کیونکہ اس کے بیان کی یہاں ضرورت نہیں تھی۔
➍ اس واقعہ سے مزدوری کرنے کا جواز بلکہ اس کا استحباب ثابت ہوتا ہے اور اس کے ضمن میں بکریاں رکھنے اور انھیں چرانے کی فضیلت بھی معلوم ہوتی ہے۔ ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اجرت پر بکریاں چرائی ہیں۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ مَا بَعَثَ اللّٰهُ نَبِيًّا إِلَّا رَعَی الْغَنَمَ ]”اللہ تعالیٰ نے جو بھی نبی بھیجا اس نے بکریاں چرائی ہیں۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب نے پوچھا: ”تو کیا آپ نے بھی (چرائی ہیں)؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ نَعَمْ كُنْتُ أَرْعَاهَا عَلٰی قَرَارِيْطَ لِأَهْلِ مَكَّةَ ][ بخاري، الإجارۃ، باب رعي الغنم علی قراریط: ۲۲۶۲ ]”ہاں، میں اہل مکہ کے لیے چند قیراطوں پر بکریاں چرایا کرتا تھا۔“
➎ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اتنی لمبی مدت تک بکریاں چرانے کی اجرت کیا تھی۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ مزدوری صرف کھانا اور کپڑا ہی تھی، جیسا کہ عتبہ بن نُدر السلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ” طٰسٓمّٓ “ کی تلاوت کی، یہاں تک کہ موسیٰ علیہ السلام کے قصے پر پہنچے، تو فرمایا: ”موسیٰ علیہ السلام نے اپنی شرم گاہ کی عفت اور پیٹ کے کھانے پر آٹھ سال یا دس سال اپنے آپ کو مزدور بنائے رکھا۔“[ ابن ماجہ، الرھون، باب إجارۃ الأجیر علی طعام بطنہ: ۲۴۴۴ ] ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس پر فرمایا: ”اس طریق سے یہ حدیث ضعیف ہے، کیونکہ مسلمہ بن علی (خُشنی، دمشقی اور ہلالی) ائمہ کے نزدیک روایت میں ضعیف ہے۔ ایک اور سند سے بھی یہ حدیث آئی ہے مگر اس میں بھی نظر ہے۔“
ابن کثیر رحمہ اللہ نے بعض روایات نقل کی ہیں کہ جس سال موسیٰ علیہ السلام نے رخصت ہونا تھا اس سال ان کے سسر نے ان سے کہا کہ اس سال جو بکری اپنے رنگ سے مختلف بچہ دے وہ تمھارا ہو گا، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ایسی کسی روایت کی سند صحیح نہیں۔ بعض صحابہ کے اقوال موجود ہیں، مگر ظاہر ہے کہ وہ اسرائیلیات سے ہیں، کیونکہ وہ صحابہ اس واقعہ کے وقت موجود نہیں تھے، نہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات روایت کرتے ہیں۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ یہ بات اسی طرح چھوڑ دی جائے جس طرح قرآن نے تفصیل کے بغیر چھوڑ دی ہے، اگر یہ بات ہدایت کے لیے ضروری ہوتی تو اللہ تعالیٰ اسے ضرور بیان فرما دیتے۔