(آیت 25) ➊ فَجَآءَتْهُ اِحْدٰىهُمَا تَمْشِيْ عَلَى اسْتِحْيَآءٍ: ”عَلٰي حَيَاءٍ“ کا معنی ہے حیا کے ساتھ، ” عَلَى اسْتِحْيَآءٍ “ میں حروف زیادہ ہونے سے معنی میں اضافہ ہو گیا، یعنی بہت حیا کے ساتھ۔
➋ شاہ عبد القادر لکھتے ہیں: ”عورتوں نے پہچانا کہ چھاؤں پکڑتا ہے مسافر ہے، دور سے آیا ہوا تھکا، بھوکا، جا کر اپنے باپ سے کہا۔“ ابن کثیر لکھتے ہیں: ”جب وہ دونوں باپ کے پاس جلدی واپس پہنچ گئیں تو اسے تعجب ہوا اور اس نے ان سے اس کے متعلق پوچھا، انھوں نے موسیٰ علیہ السلام کے احسان کا ذکر کیا، تو اس نے ان میں سے ایک کو انھیں بلانے کے لیے بھیجا۔“
➌ ” تو ان دونوں میں سے ایک بہت حیا کے ساتھ چلتی ہوئی موسیٰ کے پاس آئی۔“ سبحان اللہ! وہ خاتون کس قدر باحیا ہو گی جس کے بہت حیا کی شہادت رب العالمین نے دی ہے۔ ” تَمْشِيْ بِاسْتِحْيَاءٍ“ کے بجائے ” تَمْشِيْ عَلَى اسْتِحْيَآءٍ “ اس لیے فرمایا گویا وہ حیا کی سواری پر سوار ہو کر چلی آ رہی تھی، حیا کی ہر صورت اس کی دسترس میں تھی۔ ابن ابی حاتم نے عمر رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا: [ « فَجَآءَتْهُ اِحْدٰىهُمَا تَمْشِيْ عَلَى اسْتِحْيَآءٍ » قَائِلَةٌ بِثَوْبِهَا عَلٰی وَجْهِهَا لَيْسَتْ بِسَلْفَعِ مِنَ النِّسَاءِ وَلَّاجَةً، خَرَّاجَةً ][ طبري: ۲۷۵۸۵۔ ابن أبي حاتم: ۱۶۸۳۲]”وہ نہایت حیا کے ساتھ اپنا کپڑا چہرے پر ڈالے ہوئے آئی، بے باک عورتوں کی طرح نہیں جو بے دھڑک اور بے خوف چلی آتی ہوں، ہر جگہ جا گھستی ہر طرف نکل جاتی ہوں۔“ ابن کثیر نے فرمایا: ” هٰذَا إِسْنَادٌ صَحِيْحٌ “ اور تفسیر ابن کثیر کے محقق حکمت بن بشیر نے فرمایا: ”وَ سَنَدُهُ صَحِيْحٌ۔“ ظاہر یہی ہے کہ یہ اسرائیلی روایت ہے، مگر اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے ہاں حیا کا مطلب کیا تھا۔ جو لوگ چہرے کے پردے کے قائل نہیں انھیں غور کرنا چاہیے کہ امیر المومنین چہرہ ڈھانکنے کو حیا قرار دے رہے ہیں۔
➍ قَالَتْ اِنَّ اَبِيْ يَدْعُوْكَ: اس خاتون کے بلانے کے انداز سے بھی اس کی کمال دانائی اور حیا ظاہر ہو رہی ہے۔ اس نے اپنی طرف سے ساتھ چلنے کو نہیں کہا، بلکہ باپ کی طرف سے پیغام دیا، کیونکہ ایک باحیا خاتون کو زیب ہی نہیں دیتا کہ کسی اجنبی مرد کو ساتھ چلنے کے لیے کہے۔
➎ لِيَجْزِيَكَ اَجْرَ مَا سَقَيْتَ لَنَا: یہ بات بھی اس نے حیا ہی کی وجہ سے کہی، کیونکہ ایک غیر مرد کو ساتھ لے جانے کی کوئی معقول وجہ ہونی چاہیے، اس کے بغیر شبہات پیدا ہو سکتے تھے، جن کا اس نے پہلے ہی سدباب کر دیا۔
➏ یہاں مفسرین نے ایک سوال اٹھایا ہے کہ انبیاء تو احسان کا بدلا نہیں لیتے، پھر موسیٰ علیہ السلام پانی پلانے کی اجرت لینے کے لیے کیوں چل پڑے؟ جواب اس کا ایک تو یہ ہے کہ یہ معروف معنوں میں اجرت نہیں، بلکہ احسان کا بدلا ہے، احسان کے بدلے میں کوئی احسان کرے تو اسے قبول کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں، جیسا کہ فرمایا: « هَلْ جَزَآءُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُ »[الرحمٰن: ۶۰ ]”نیکی کا بدلا نیکی کے سوا کیا ہے۔“ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہدیہ قبول کرتے تھے اور اس کا بدلا بھی دیتے تھے، حدیث کے الفاظ ہیں: [ كَانَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْبَلُ الْهَدِيَّةَ وَ يُثِيْبُ عَلَيْهَا ][بخاري، الھبۃ، باب المکافأۃ في الھبۃ: ۲۵۸۵ ] پھر موسیٰ علیہ السلام اس وقت سخت اضطرار کی حالت میں تھے، انھوں نے اس دعوت کو اپنی دعا کی قبولیت کا نتیجہ سمجھا اور خواہ مخواہ کی خود داری سے اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ اس موقع کو ضائع نہیں کیا۔ دوسرا جواب اس کا یہ ہے کہ اگر کسی کو اصرار ہو کہ یہ اجرت ہی تھی تو محنت کے بدلے میں مزدوری لینا موسیٰ علیہ السلام منع نہیں سمجھتے تھے، نہ ہی یہ منع ہے، خصوصاً جب کوئی بلا طلب مزدوری دے دے، جیسا کہ خضر علیہ السلام کے واقعہ میں ہے کہ جب انھوں نے گرتی ہوئی دیوار سیدھی کر دی تو موسیٰ علیہ السلام نے ان سے کہا: « لَوْ شِئْتَ لَتَّخَذْتَ عَلَيْهِ اَجْرًا »[ الکہف: ۷۷ ]”اگر تو چاہتا تو ضرور اس پر کچھ اجرت لے لیتا۔“
➐ فَلَمَّا جَآءَهٗ وَ قَصَّ عَلَيْهِ الْقَصَصَ: جب موسیٰ علیہ السلام اس بزرگ کے پاس آئے تو ظاہر ہے سب سے پہلی بات تعارف تھا، چنانچہ موسیٰ علیہ السلام نے اپنا نام و نسب، اپنی قوم پر فرعون کا ظلم و ستم، اپنی پیدائش اور پرورش کا قصہ اور ایک نادانستہ قتل پر فرعون کے ان کی جان کے درپے ہونے کا حال بیان کیا۔
➑ قَالَ لَا تَخَفْ …: اس بزرگ نے کھانا وغیرہ پیش کرنے سے پہلے موسیٰ علیہ السلام کا خوف دور کیا، کیونکہ خوف میں مبتلا شخص بھوک کے مارے کھانا کھائے بھی تو اس میں اسے لذت نہیں ملتی، اس لیے سب سے پہلے اس نے کہا ڈرو مت، اس جگہ فرعون کی حکومت نہیں، تم ان ظالموں سے نجات پا چکے ہو۔ اس کے بعد نہایت عزت و احترام سے ان کی مہمان نوازی کی۔