یہ ایک اور نعمت یاد دلائی جا رہی ہے کہ جب تمہارے نبی علیہ السلام نے تمہارے لیے پانی طلب کیا تو ہم نے اس پتھر سے چشمے بہا دئیے جو تمہارے ساتھ رہا کرتا تھا اور تمہارے ہر قبیلے کے لیے اس میں سے ایک ایک چشمہ ہم نے جاری کرا دیا جسے ہر قبیلہ نے جان لیا اور ہم نے کہہ دیا کہ من و سلویٰ کھاتے رہو اور ان چشموں کا پانی پیتے رہو بے
محنت کی روزی کھا پی کر ہماری عبادت میں لگے رہو نافرمانی کر کے زمین میں فساد مت پھیلاؤ ورنہ یہ نعمتیں چھن جائیں گی۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں یہ ایک چکور پتھر تھا جو ان کے ساتھ ہی تھا۔ موسیٰ علیہ السلام نے بحکم اللہ اس پر لکڑی ماری چاروں طرف سے تین تین نہریں بہ نکلیں۔ یہ پتھر بیل کے سر جتنا تھا جو بیل پر لاد دیا جاتا تھا۔ جہاں اترتے رکھ دیتے اور عصا کی ضرب لگتے ہی اس میں سے نہریں بہ نکلیں۔ جب کوچ کرتے اٹھا لیتے نہریں بند ہو جاتیں اور پتھر کو ساتھ رکھ لیتے۔ یہ پتھر طور پہاڑ کا تھا ایک ہاتھ لمبا اور ایک ہاتھ چوڑا تھا بعض کہتے ہیں یہ جنتی پتھر تھا دس دس ہاتھ لمبا چوڑا تھا دو شاخیں تھیں جو چمکتی رہتی تھیں۔ ایک اور قول میں ہے کہ یہ پتھر آدم کے ساتھ جنت سے آیا تھا اور یونہی ہاتھوں ہاتھ پہنچتا ہوا شعیب کو ملا تھا انہوں نے لکڑی اور پتھر دونوں موسیٰ علیہ السلام کو دئے تھے بعض کہتے ہیں یہ وہی پتھر ہے جس پر موسیٰ علیہ السلام اپنے کپڑے رکھ کر نہا رہے تھے اور بحکم الٰہی یہ پتھر آپ کے کپڑے لے کر بھاگا تھا اسے موسیٰ علیہ السلام نے جبرائیل علیہ السلام کے مشورے سے اٹھا لیا تھا جس سے آپ کا معجزہ ظاہر ہوا۔
زمخشری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ حجر پر الف لام جنس کے لیے ہے عہد کے لیے نہیں یعنی ک
سی ایک پتھر پر عصا مارو یہ نہیں کہ فلاں پتھر ہی پر مارو حسن سے بھی یہی مروی ہے اور یہی معجزے کا کمال اور قدرت کا پورا اظہار ہے آپ کی لکڑی لگتے ہی وہ بہنے لگتا اور پھر دوسری لکڑی لگتے ہی خشک ہو جاتا بنی اسرائیل آپس میں کہنے لگے کہ اگر یہ پتھر گم ہو گیا تو ہم پیاسے مرنے لگیں گے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم لکڑی نہ مارو صرف زبانی کہو تاکہ انہیں یقین آ جائے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
ہر ایک قبیلہ اپنی اپنی نہر کو اس طرح جان لیتا کہ ہر قبیلہ کا ایک ایک آدمی پتھر کے پاس کھڑا رہ جاتا اور لکڑی لگتے ہی اس میں سے چشمے جاری ہو جاتے جس شخص کی طرف جو چشمہ جاتا وہ اپنے قبیلے کو بلا کر کہہ دیتا کہ یہ چشمہ تمہارا ہے یہ واقعہ میدان تیہ کا ہے سورۃ الاعراف میں بھی اس واقعہ کا بیان ہے «وَقَطَّعْنَاهُمُ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ أَسْبَاطًا أُمَمًا ۚ وَأَوْحَيْنَا إِلَىٰ مُوسَىٰ إِذِ اسْتَسْقَاهُ قَوْمُهُ أَنِ اضْرِب بِّعَصَاكَ الْحَجَرَفَانبَجَسَتْ»[7-الأعراف:160] لیکن چونکہ وہ سورت مکی ہے اس لیے وہاں ان کا بیان غائب کی ضمیر سے کیا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے جو احسانات ان پر نازل فرمائے تھے وہ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دہرائے ہیں اور یہ سورت مدنی ہے اس لیے یہاں خود انہیں خطاب کیا گیا ہے۔ سورۃ الاعراف میں «فَانبَجَسَتْ»[7-الأعراف:160] کہا اور یہاں «فَانفَجَرَتْ» کہا اس لیے کہ وہاں اول اول جاری ہونے کے معنی میں ہے اور یہاں آخری حال کا بیان ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» اور ان دونوں جگہ کے بیان میں دس وجہ سے فرق ہے جو فرق لفظی بھی ہے اور معنوی بھی زمخشری نے اپنے طور پر ان سب وجوہ کو بیان کیا ہے اور حقیقت اس میں قریب ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»