(آیت 15) ➊ وَ دَخَلَ الْمَدِيْنَةَ عَلٰى حِيْنِ غَفْلَةٍ مِّنْ اَهْلِهَا:”شہر میں داخل ہوا “سے معلوم ہوا کہ شاہی محلاّت عام آبادی سے باہر واقع تھے، جہاں سے وہ شہر میں داخل ہوئے۔ ” غَفْلَةٍ “ میں تنوین کی وجہ سے ”کسی قدر غفلت“ ترجمہ کیا گیا ہے۔ ایک دفعہ وہ شہر میں ایسے وقت میں آئے جو کسی قدر غفلت کا وقت تھا۔ یہ صبح سویرے یا عشاء کے بعد یا دوپہر کے وقت میں سے کوئی وقت بھی ہو سکتا ہے، مگر غالب یہی ہے کہ وہ دوپہر کا وقت تھا جب سڑکیں سُنسان ہوتی ہیں، لوگ گرمی کی وجہ سے گھروں میں آرام کر رہے ہوتے ہیں۔ چنانچہ ابن ابی حاتم نے اپنی صحیح سند کے ساتھ ابن عباس رضی اللہ عنھما کا قول ذکر فرمایا ہے: ” نِصْفُ النَّهَارِ“”(یعنی یہ) دوپہر کا وقت تھا۔“[ ابن أبي حاتم: ۱۶۷۵۵ ]
➋ فَوَجَدَ فِيْهَا رَجُلَيْنِ يَقْتَتِلٰنِ …: موسیٰ علیہ السلام کو معلوم تھا کہ وہ بنی اسرائیل سے ہیں، وہ قبطیوں کے بنی اسرائیل پر مظالم سے بھی آگاہ تھے اور ہر روز اپنی آنکھوں سے ان مظالم کا مشاہدہ کرتے تھے، اس لیے قدرتی طور پر ان کی ہمدردیاں اپنی قوم کے ساتھ تھیں۔ قوم بھی جانتی تھی کہ وہ ان کے ایک فرد ہیں۔ اب موسیٰ علیہ السلام نے دیکھا کہ دو آدمی لڑ جھگڑ رہے ہیں، ان میں سے ایک ان کی قوم سے ہے اور دوسرا قبطی ہے، جو ان کے دشمن تھے۔ قبطی حسبِ عادت غلام سمجھ کر اسرائیلی پر زیادتی کر رہا تھا۔ اسرائیلی اگر مقابلہ کر سکتا ہوتا تو اسے مدد مانگنے کی ضرورت نہ تھی۔ جب وہ بے بس ہو گیا تو اس نے مدد کے لیے موسیٰ علیہ السلام کو آواز دی۔ موسیٰ علیہ السلام طبعی طور پر کمزوروں اور مظلوموں کے ہمدرد تھے۔ اب ظلم ہوتے دیکھا تو مظلوم کو بچانے کے لیے آگے بڑھے اور قبطی کو ایک گھونسا مارا، جس سے اس کا کام تمام ہو گیا۔ موسیٰ علیہ السلام کا اسے قتل کرنے کا نہ ارادہ تھا نہ ان کے وہم و گمان میں یہ بات تھی کہ وہ ایک گھونسے سے مر جائے گا۔ جب اچانک یہ واقعہ ہوا اور موسیٰ علیہ السلام نے اس کے انجام پر غور کیا کہ ان کے اور ان کی قوم کے حق میں اس کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے، تو وہ سخت پریشان ہوئے اور کہنے لگے کہ یہ شیطان کا کام ہے جس نے بڑے فساد کے لیے مجھے غصہ دلا کر یہ کام کروایا ہے۔ وہ تو ایسا دشمن ہے جو کھلم کھلا گمراہ کر دینے والا ہے۔