(آیت 12) ➊ وَ حَرَّمْنَا عَلَيْهِ الْمَرَاضِعَ مِنْ قَبْلُ:” الْمَرَاضِعَ “”مُرْضِعٌ“ کی جمع بھی ہو سکتی ہے، یعنی دودھ پلانے والیاں اور” مَرْضَعٌ“ کی بھی جو ظرف مکان ہو تو مراد دودھ پلانے کی جگہ ہو گی، یعنی دودھ کی چھاتیاں اور اگر مصدر میمی ہو تو مراد تمام دودھ ہوں گے، یعنی ہم نے اپنی تقدیر میں طے شدہ حکم کے ذریعے سے موسیٰ علیہ السلام پر تمام دودھ پہلے ہی حرام کر دیے تھے، یعنی پینے سے منع کر دیا تھا۔ فرعون کی بیوی کو موسیٰ علیہ السلام سے بے پناہ محبت ہو گئی تھی اور وہ ہر قیمت پر ان کے لیے دودھ کا انتظام کرنا چاہتی تھی، مگر جو دایہ بھی لائی گئی، موسیٰ نے اس کا دودھ پینے سے انکار کر دیا۔ فرعون کی بیوی سخت فکر مند تھی کہ دودھ نہ پینے کی وجہ سے اتنا پیارا بچہ کہیں فوت نہ ہو جائے۔
➋ فَقَالَتْ هَلْ اَدُلُّكُمْ عَلٰۤى اَهْلِ بَيْتٍ يَّكْفُلُوْنَهٗ لَكُمْ …: موسیٰ علیہ السلام کی بہن اجنبی بن کر یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی۔ جب موسیٰ علیہ السلام کو دودھ پلانے کی تمام کوششیں ناکام ہو گئیں تو اس نے موقع پا کر کہا، کیا میں تمھیں ایک ایسے گھر والے بتاؤں جو تمھارے لیے اس کی کفالت کریں گے اور وہ اس کے خیر خواہ ہوں گے۔ یہاں درمیان کی بات چھوڑ دی گئی ہے، کیونکہ وہ خود بخود سمجھ میں آ رہی ہے کہ فرعون کے گھر والوں نے اس سے پوچھا کہ وہ گھر والے کون ہیں؟ اس نے کہا، میری ماں۔ انھوں نے کہا، اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ بچہ تمھارا ہے اور تم اس کے متعلق جانتی ہو۔ اس نے کہا، بلکہ ہم بادشاہ کے خیرخواہ اور مخلص محبت کرنے والے ہیں، اس لیے اس بچے کی خیر خواہی اور خدمت میں کوئی کوتاہی نہیں کریں گے۔ انھوں نے کہا، تمھاری اماں کے ہاں دودھ کہاں سے آیا؟ اس نے کہا، میرا بھائی ہارون پچھلے سال پیدا ہوا ہے اور دودھ پی رہا ہے۔ غرض انھوں نے موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کو بلوایا، کیونکہ ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ سلطنت کی ملکہ ہر حال میں اس کے لیے دودھ کا انتظام کرنا چاہتی تھی، جوں ہی ماں نے بچے کے منہ سے اپنی چھاتی لگائی، بچہ خوش ہو کر دودھ پینے لگا۔