(آیت 9) ➊ وَ قَالَتِ امْرَاَتُ فِرْعَوْنَ قُرَّتُ عَيْنٍ لِّيْ وَ لَكَ …: فرعون اور اس کی بیوی نے صندوق کھلوایا تو اس میں سے نہایت خوب صورت اور پیارا بچہ نکلا، جس میں اللہ تعالیٰ نے ایسی کشش رکھ دی تھی کہ جو دیکھے اس سے محبت کرنے لگے، جیسا کہ فرمایا: « وَ اَلْقَيْتُ عَلَيْكَ مَحَبَّةً مِّنِّيْ »[ طٰہٰ: ۳۹ ]”اور میں نے تجھ پر اپنی طرف سے ایک محبت ڈال دی۔“ مگر جس طریقے سے یہ بچہ آیا تھا اس سے صاف ظاہر تھا کہ یہ بنی اسرائیل کے کسی آدمی کا بچہ ہے، جس نے ذبح ہونے سے بچانے کے لیے اسے دریا کے حوالے کر دیا ہے، اس لیے فرعون اور اس کے خونخوار ساتھیوں نے اصرار کیا کہ اسے ہر حال میں ذبح کیا جائے، مگر فرعون کی بیوی کہنے لگی کہ یہ میری اور تیری آنکھ کی ٹھنڈک ہے، اسے قتل مت کرو۔ فرعون کی بیوی کا یہ کہنا کہ ”اسے قتل مت کرو “ اس بات کا قرینہ ہے کہ وہ لوگ اسے قتل کرنے کے درپے ہو چکے تھے۔
➋ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرعون کی بیوی کا نام آسیہ بتایا ہے۔ یہ خاتون دنیا کی سب سے بلند مرتبہ خواتین میں سے ایک تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [كَمُلَ مِنَ الرِّجَالِ كَثِيْرٌ وَلَمْ يَكْمُلْ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا آسِيَةُ امْرَأَةُ فِرْعَوْنَ وَمَرْيَمُ بِنْتُ عِمْرَانَ وَ إِنَّ فَضْلَ عَائِشَةَ عَلَی النِّسَاءِ كَفَضْلِ الثَّرِيْدِ عَلٰی سَائِرِ الطَّعَامِ ][بخاري، أحادیث الأنبیاء، باب قول اللہ تعالٰی: «و ضرب اللہ مثلا…»: ۳۴۱۱، عن أبي موسیٰ رضی اللہ عنہ ]”مردوں میں سے بہت سے کامل ہوئے ہیں، مگر عورتوں میں فرعون کی بیوی آسیہ اور عمران کی بیٹی مریم کے سوا کوئی کامل نہیں ہوئی اور عائشہ کی عورتوں پر برتری ایسے ہی ہے جیسے ثرید کی برتری تمام کھانوں پر۔“ آسیہ علیھا السلام کے متعلق مزید دیکھیے سورۂ تحریم (۱۱)۔
➌ عَسٰۤى اَنْ يَّنْفَعَنَاۤ اَوْ نَتَّخِذَهٗ وَلَدًا: اس سے معلوم ہوا کہ فرعون اولاد سے محروم تھا۔ اللہ کی شان دیکھیے کہ” اَنَا رَبُّكُمْ الْاَعْلٰي “ کا دعویٰ کرنے والا اولاد کی خواہش رکھنے کے باوجود اولاد حاصل نہیں کر سکا۔ لوگوں کے بنائے ہوئے بہت سے مشکل کُشا اور حاجت روا، جن سے لوگ اولاد مانگتے ہیں، دنیا سے بے اولاد ہی رخصت ہو گئے۔ لاہور میں مدفون مشہور بزرگ علی ہجویری کی خود اولاد نہیں تھی، مگر لوگ ہیں کہ انھیں داتا (رازق) اور گنج بخش (خزانے عطا کرنے والا) کہہ کر ان سے مال و اولاد مانگتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سمجھ عطا فرمائے۔
➍ آسیہ علیھا السلام نے موسیٰ علیہ السلام کے متعلق جو کچھ کہا اللہ تعالیٰ نے اسے سچ کر دکھایا، آپ اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک بھی بنے اور اسے وہ نفع پہنچایا جو کم ہی کسی بچے نے اپنی پالنے والی کو پہنچایا ہو گا۔ اگر فرعون بھی یہ الفاظ کہتا تو شاید اسے بھی یہ سعادت مل جاتی، مگر ظالموں کو ایسی ہدایت نہیں ملتی، جیسا کہ فرمایا: « وَ اللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ »[ البقرۃ: ۲۵۸]”اور اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔“
➎ وَ هُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ: یعنی انھیں یہ خیال تک نہ تھا کہ یہ بچہ بڑا ہو کر ہمارے زوال اور ہماری ہلاکت کا باعث بنے گا۔