(آیت 7) ➊ وَ اَوْحَيْنَاۤ اِلٰۤى اُمِّ مُوْسٰۤى:”وحی“ کا لفظی معنی خفیہ اور تیز اشارہ ہے۔ وحی کرنے کا مطلب کوئی بات خفیہ طریقے سے دل میں ڈالنا ہے۔ یہاں کلام کا ایک حصہ محذوف ہے کہ مظلوم بنی اسرائیل پر احسان کی ابتدا یہاں سے ہوئی کہ ان کی نجات کا ذریعہ بننے والے لڑکے کی ماں اس کے ساتھ اس سال حاملہ ہوئی جس میں ان کے لڑکوں کو ذبح کیا جاتا تھا۔ ان کے والد کا نام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمران بیان فرمایا ہے۔ [ دیکھیے مسلم، الإیمان، باب الإسراء برسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم …: ۲۶۷ /۱۶۵ ] اس سے پہلے ان کے بھائی ہارون علیہ السلام کی ولادت اس سال ہو چکی تھی جس میں لڑکے قتل نہیں کیے جاتے تھے۔ دیکھیے سورۂ بقرہ کی آیت (۴۹) کی تفسیر۔ ان کی والدہ کا نام اللہ تعالیٰ نے بیان نہیں فرمایا، نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر فرمایا ہے۔ بعض مفسرین نے ان کا نام ”ایارفت“ اور بعض نے ”لوحا“ بتایا ہے، مگر یہ کسی صحیح حوالے سے ثابت نہیں۔ قرآن ان کا ذکر ”اُمّ موسيٰ“ کے نام سے کرتا ہے۔
➋ یہاں اللہ تعالیٰ نے ” اَوْحَيْنَاۤ “ میں اور آگے آنے والے الفاظ میں اپنی عظمت کے اظہار کے لیے اپنا ذکر جمع کے صیغے کے ساتھ فرمایا ہے، کیونکہ شاہی حکم عموماً جمع کے صیغے سے جاری ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ تو ملک الملوک اور شہنشاہ ہے۔ مقصد یہ ہے کہ یہ جو کچھ ہوا ہماری قدرت و حکمت کے نتیجے میں ہوا، ورنہ ایسا ہونا ممکن نہ تھا۔
➌ وحی کا لفظی معنی خفیہ اور تیز اشارہ ہے۔ اُمّ موسیٰ کو اللہ تعالیٰ نے یہ وحی کس طرح کی، اس کی صراحت نہیں فرمائی۔ انھیں الہام کیا (ان کے دل میں ڈالا) یا انھیں خواب دکھایا، بہر حال یہ وحی انھیں چند باتیں بتانے کے لیے تھی، نبوت کی وحی نہیں تھی۔ کیونکہ اس بات پر تمام علماء کا اجماع ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کی والدہ نبیہ نہیں تھیں، کیونکہ تمام انبیاء مرد تھے۔ (دیکھیے انبیاء: ۷) بعض مفسرین کہتے ہیں کہ ان کے پاس فرشتہ آیا، اس صورت میں بھی یہی کہا جائے گا کہ فرشتے تو بعض اوقات غیر انبیاء کے پاس بھی آ جاتے ہیں، جیسا کہ مریم بنت عمران علیھا السلام کے پاس بھی فرشتہ آیا اور انھیں مسیح علیہ السلام کی ولادت کی بشارت دی۔ (دیکھیے مریم: ۱۶ تا ۲۱) صحیح بخاری (۳۴۶۴) اور صحیح مسلم (۲۹۶۴) میں گنجے، کوڑھی اور نابینے شخص کا قصہ مذکور ہے کہ ان کے پاس فرشتہ آیا اور ان سے ہم کلام ہوا۔ سنن کبریٰ بیہقی کی صحیح حدیث (۹۱۱۰) میں ہے کہ فرشتوں نے عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کو سلام کیا، لیکن اس سے وہ نبی نہیں بن گئے۔
➍ اَنْ اَرْضِعِيْهِ: اللہ تعالیٰ نے اُمّ موسیٰ کو وحی کی کہ اپنے بچے کو کچھ مدت تک دودھ پلا، تاکہ اس کی ابتدائی غذائی ضرورت پوری ہو جائے، کیونکہ ماں کے دودھ سے بڑھ کر کوئی چیز وہ ضرورت پوری نہیں کر سکتی، اور جسم کچھ مضبوط ہو جائے، جو آخری مرتبہ دودھ پلا کر دریا میں ڈالنے سے لے کر دایہ کا دودھ ملنے تک کا وقفہ برداشت کر سکے۔ ”اسے دودھ پلا“ کے ضمن میں یہ حکم بھی موجود ہے کہ اتنی مدت تک اسے ہرحال میں چھپا کر رکھ، کسی کو اس کی خبر نہ ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ حمل کی پوری مدت، پھر ولادت کے وقت، حتیٰ کہ کچھ عرصہ دودھ پلانے تک فرعون کی مقرر کردہ دایوں اور اس کے جاسوسوں کو اس معاملے کی خبر نہ ہو سکنا اللہ تعالیٰ کا معجزانہ انتظام تھا، جس کا ذکر سورۂ طٰہٰ (۳۹) میں ” وَ لِتُصْنَعَ عَلٰى عَيْنِيْ “ کے الفاظ کے ساتھ فرمایا ہے۔ دودھ پلانے کا یہ عرصہ کتنا تھا؟ تین ماہ یا چھ ماہ یا سال، اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے، کیونکہ صحیح ذریعے سے اس کی تعیین ثابت نہیں۔
➎ فَاِذَا خِفْتِ عَلَيْهِ فَاَلْقِيْهِ فِي الْيَمِّ: اس کی تفصیل سورۂ طٰہٰ (۳۸ تا ۴۰) میں ہے۔
➏ وَ لَا تَخَافِيْ وَ لَا تَحْزَنِيْ: خوف آنے والے خطرے کا ہوتا ہے اور غم گزشتہ نقصان کا۔ فرمایا جب تمھیں فرعون کے جاسوسوں کا خطرہ محسوس ہو تو اسے دریا میں پھینک دو اور نہ ڈرو کہ ضائع ہو جائے گا، یا اسے کوئی نقصان پہنچے گا اور نہ غم کرو کہ میں نے اپنے بچے کو دریا میں کیوں پھینک دیا۔
➐ اِنَّا رَآدُّوْهُ اِلَيْكِ وَ جَاعِلُوْهُ مِنَ الْمُرْسَلِيْنَ: مفسرین نے اس آیت میں اللہ کے کلام کا اعجاز بیان کیا ہے کہ اس مختصر سی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اُمّ موسیٰ کو دو چیزوں کا حکم دیا ہے، یعنی ” اَنْ اَرْضِعِيْهِ “ اور ” فَاَلْقِيْهِ فِي الْيَمِّ “ اور دو چیزوں سے منع فرمایا ہے، یعنی ”وَ لَا تَخَافِيْ “ اور ” وَ لَا تَحْزَنِيْ “ اور دو چیزوں کا وعدہ فرمایا اور خوش خبری دی ہے، یعنی ”اِنَّا رَآدُّوْهُ اِلَيْكِ “ اور”وَ جَاعِلُوْهُ مِنَ الْمُرْسَلِيْنَ “۔