(آیت 5) ➊ وَ نُرِيْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَى الَّذِيْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِي الْاَرْضِ …: فرعون کے اس ظلم کو اللہ تعالیٰ کی رحمت کس طرح برداشت کر سکتی تھی، خصوصاً جب مظلوم قوم مسلمان بھی ہو۔ ابن عباس رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف بھیجا اور فرمایا: [ اِتَّقِ دَعْوَةَ الْمَظْلُوْمِ فَإِنَّهُ لَيْسَ بَيْنَهَا وَ بَيْنَ اللّٰهِ حِجَابٌ ][ بخاري، الزکاۃ، باب أخذ الصدقۃ من الأغنیاء …: ۱۴۹۶ ]”مظلوم کی بد دعا سے بچ، کیونکہ اس کے درمیان اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ نہیں۔“ یعنی فرعون تو اس مظلوم قوم کو مکمل طور پر نیست و نابود کرنے پر تلا ہوا تھا، مگر ہمارا ارادہ یہ تھا کہ ان لوگوں پر احسان کریں جنھیں نہایت کمزور کیا گیا۔ احسان وہ عطیہ ہے جو کسی عوض کے بغیر دیا جائے، یعنی بنی اسرائیل پر فرعون سے نجات کی نعمت اور دوسری نعمتیں محض ہمارا احسان اور فضل و کرم تھا۔
➋ وَ نَجْعَلَهُمْ اَىِٕمَّةً: مستضعفین کی مدد کے لیے اللہ تعالیٰ کی غیرت جب جوش میں آتی ہے تو وہ ان سے صرف ظلم ہی دور نہیں کرتا، بلکہ انھیں مزید انعامات سے بھی نوازتا ہے۔ چنانچہ فرمایا، ہم چاہتے تھے کہ ان پر احسان کریں اور انھیں دین کی پیشوائی کے ساتھ حکومت و اقتدار کے پیشوا بھی بنائیں، تاکہ کسی کو ان پر ظلم کی جرأت ہی نہ ہو۔
➌ وَ نَجْعَلَهُمُ الْوٰرِثِيْنَ: اور انھیں فرعون اور آل فرعون کے غلبے و اقتدار کا اور ان تمام چیزوں کا وارث بنائیں جو وہ چھوڑ کر غرق ہونے والے تھے، اور ایسا ہی ہوا۔ دیکھیے سورۂ اعراف (۱۳۷)، شعراء (۵۷ تا ۵۹) اور دخان (۲۵ تا ۲۷)۔