(آیت 93) ➊ وَ قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ: اور کہہ دے کہ سب تعریف اللہ کے لیے ہے جو تمام صفات کمال کا جامع ہے۔ کسی کے ہدایت قبول کرنے یا نہ کرنے سے اس کی حمد میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔ اگر تمام جنّ و انس اور پہلے اور پچھلے سب سے متقی شخص کے دل والے ہو جائیں تو اس سے اس کی بادشاہت میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا اور اگر تمام جنّ و انس اور اول و آخر سب سے فاجر شخص کے دل والے ہو جائیں تو اس سے اس کی بادشاہت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔
➋ سَيُرِيْكُمْ اٰيٰتِهٖ فَتَعْرِفُوْنَهَا: عنقریب وہ تمھیں اپنی نشانیاں دکھائے گا، تو تم انھیں پہچان لو گے کہ ہاں یہ وہی نشانیاں ہیں جن کا وعدہ اللہ اور اس کے رسول نے کیا تھا، مگر اس وقت کا پہچاننا تمھیں کوئی فائدہ نہ دے سکے گا۔ یہ خطاب کفار مکہ سے ہے، اسلامی فتوحات اور تباہ شدہ قوموں کے آثار بھی ان میں شامل ہیں اور قرب قیامت کی نشانیاں بھی اس کے تحت آجاتی ہیں۔ دیکھیے سورۂ حٰم السجدہ (۵۳)۔
➌ وَ مَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ: آیت کے اس جملے کے تحت ابن کثیر نے ابن ابی حاتم سے جید سند کے ساتھ عمر بن عبدالعزیز کا قول ذکر کیا ہے، انھوں نے فرمایا: [ فَلَوْ كَانَ اللّٰهُ مُغْفِلًا شَيْئًا لَأَغْفَلَ مَا تَعَفِّي الرِّيَاحُ مِنْ أَثَرِ قَدَمَيِ ابْنِ آدَمَ ][ ابن کثیر: 219/6 ]”اگر اللہ تعالیٰ کسی چیز سے غفلت کرنے والا ہوتا، تو ابن آدم کے قدموں کے نشانوں سے ضرور غفلت برتتا، جنھیں ہوائیں مٹا دیتی ہیں (مگر اللہ تعالیٰ ان سے بھی غافل نہیں)۔“ مراد یہ آیت ہے: « اِنَّا نَحْنُ نُحْيِ الْمَوْتٰى وَ نَكْتُبُ مَا قَدَّمُوْا وَ اٰثَارَهُمْ »[ یٰس: ۱۲ ]”بے شک ہم ہی مردوں کو زندہ کرتے ہیں اور ہم لکھ رہے ہیں جو عمل انھوں نے آگے بھیجے اور ان کے چھوڑے ہوئے نشان بھی۔“ اور ابن کثیر نے امام احمد رحمہ اللہ کے متعلق نقل فرمایا کہ وہ یہ دو اشعار پڑھا کرتے تھے، جو یا تو ان کے ہیں یا کسی اور کے:
إِذَا مَا خَلَوْتَ الدَّهْرَ يَوْمًا فَلاَ تَقُلْ
خَلَوْتُ وَلٰكِنْ قُلْ عَلَيَّ رَقِيْبُ
وَ لَا تَحْسَبَنَّ اللّٰهَ يَغْفُلُ سَاعَةً
وَ لَا أَنَّ مَا يَخْفٰي عَلَيْهِ يَغِيْبُ
”یعنی جب تو کسی بھی وقت اکیلا ہو تو یہ نہ کہنا کہ میں اکیلا ہوں، بلکہ کہنا کہ مجھ پر ایک زبردست نگران ہے اور نہ کبھی گمان کرنا کہ اللہ تعالیٰ ایک لمحے کے لیے بھی غافل ہے اور نہ یہ کہ کوئی پوشیدہ چیز اس کے علم سے باہر ہے۔“