(آیت 71) ➊ وَ يَقُوْلُوْنَ مَتٰى هٰذَا …: کافروں کا یہ کہنا اس لیے نہیں تھا کہ وہ جاننا چاہتے تھے کہ قیامت اور اس میں ہونے والا عذاب کب واقع ہو گا، بلکہ وہ یہ بات قیامت کا مذاق اڑانے کے لیے کہتے تھے۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ ہم اسے جلد از جلد لانے کا مطالبہ کریں گے، جب وہ ہمارے تقاضے کے مطابق واقع نہیں ہو گی تو ہمیں اس کا مذاق اڑانے کا اور اسے جھوٹ قرار دینے کا موقع مل جائے گا۔
➋ لفظ” الْوَعْدُ “ کے ساتھ بھی وہ قیامت کا تمسخر اڑا رہے تھے، کیونکہ وعدہ اچھی چیز کا ہوتا ہے، بری چیز کی وعید ہوتی ہے۔ وہ مذاق اڑاتے ہوئے قیامت کو ” مَتٰى هٰذَا الْوَعْدُ “ کہہ رہے ہیں، پھر ” اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ “ کہہ کر جلد از جلد عذاب لانے پر ابھار رہے ہیں، انھیں یہ معلوم نہیں کہ پیغمبروں کے سچے ہونے میں کوئی شک نہیں، مگر عذاب لانا یا نہ لانا اور جلدی لانا یا دیر سے لانا پیغمبر کا کام نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔ پیغمبر کا کام صرف خبردار کرنا ہے، جیسا کہ فرمایا: « وَ يَقُوْلُوْنَ مَتٰى هٰذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ (25) قُلْ اِنَّمَا الْعِلْمُ عِنْدَ اللّٰهِ وَ اِنَّمَاۤ اَنَا نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ »[الملک: ۲۵، ۲۶ ]”اور وہ کہتے ہیں یہ وعدہ کب (پورا) ہو گا، اگر تم سچے ہو؟ کہہ دے یہ علم تو اللہ ہی کے پاس ہے اور میں تو بس ایک کھلا ڈرانے والا ہوں۔“