(آیت 69) ➊ قُلْ سِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ …: یہ کفار کے اعتراض کا جواب ہے کہ زمین میں چلو پھرو اور دیکھو مجرموں کا انجام کیا ہوا، تمھیں معلوم ہو جائے گا کہ پیغمبروں نے ان نافرمانوں سے جو وعدہ کیا تھا وہ پورا ہو کر رہا اور پیغمبروں کی کوئی بات جھوٹی نہیں ہوئی۔ اب جو ان پیغمبروں نے کہا ہے کہ ایک دن قیامت ضرور آئے گی اور اس میں لوگوں کو ان کے نیک اعمال کی جزا اور برے اعمال کی سزا ملے گی تو ان کی یہ بات بھی جھوٹی نہیں ہو سکتی۔
➋ فَانْظُرُوْا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُجْرِمِيْنَ: قیامت کے منکروں کو مجرم قرار دیا گیا ہے، کیونکہ انسان کو جرم اور ظلم و زیادتی سے روکنے والی چیز صرف اور صرف آخرت کا یقین ہے۔ یہ نہ ہو تو آدمی کو مجرم بننے سے کوئی چیز باز رکھ سکتی ہی نہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا دستور ہے کہ جب قیامت کے منکروں کے جرائم حد سے بڑھ جاتے ہیں تو اس کا زبردست ہاتھ انھیں تباہ و برباد کر کے دنیا کو ان کے وجود اور ان کے جرائم سے نجات دیتا ہے، مگر ان کے جرائم کا پورا بدلا تو انھیں آخرت ہی میں دیا جائے گا۔ دنیا میں اگر کوئی بچ بھی گیا تو آخرت میں بچ کر کہاں جائے گا۔