تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 61) اَمَّنْ جَعَلَ الْاَرْضَ قَرَارًا: یا کون ہے جس نے زمین کو ٹھہرنے کی جگہ بنایا۔ مفسر عبدالرحمان کیلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: اس ایک جملے میں اللہ تعالیٰ کی کئی قدرتیں سمٹ کر آ گئی ہیں۔ یہ بات تو ہزاروں سال پہلے انسان کے علم میں آچکی تھی کہ ہمارا یہ عظیم الجثہ کرۂ زمین گول ہے اور فضا میں معلق ہے۔ زمین کا اکثر حصہ سمندر ہے اور زمین کے گول ہونے کے باوجود پانی اس سے گر نہیں جاتا۔ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر آسمانی کرہ کی طرح ہماری زمین میں بھی کشش ثقل موجود ہے، جس کی وجہ سے اشیاء زمین پر از خود گر تو سکتی ہیں مگر خود بخود کسی طاقت کے استعمال کے بغیر اوپر نہیں اٹھ سکتیں، ماسوائے گیسوں اور آبی بخارات کے کہ ان کا کرّہ ہی زمین سے اوپر ہے۔ اگر کوئی گیس جو عام ہوا سے ہلکی ہو، زمین سے بھی نکلے گی تو از خود اوپر اٹھ جائے گی۔ یہ عجائبات ہی کیا کم تھے کہ اب مزید علم ہیئت کی تحقیقات نے ان عجائبات میں بے پناہ اضافہ کر دیا ہے، مثلاً یہ کہ ہماری زمین سورج کے سامنے رہتے ہوئے اپنے محور کے گرد تقریباً ایک ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گھوم رہی ہے اور اس کا چکر ایک دن رات یا ۲۴ گھنٹوں میں پورا ہوتا ہے اور دوسرے یہ کہ ہماری زمین سورج سے ۹ کروڑ ۳۰ لاکھ میل دور ہے اور اس کے گرد بھی ایک سال میں ایک گردش پوری کرتی ہے، تو گویا سورج کے گرد اس کی گردش کی رفتار چھیاسٹھ ہزار چھ سو میل فی گھنٹہ ہے۔ ان دونوں قسم کی گردشوں کے باوجود اللہ تعالیٰ نے زمین کو اس قدر جکڑ رکھا ہے کہ ہم محسوس تک نہیں کر سکتے، بلکہ آرام سے اس پر چلتے پھرتے اور زندگی بسر کرتے ہیں۔ زمین کے جائے قرار ہونے کا ایک مفہوم یہ ہوا اور صحیح احادیث میں وارد ہے کہ ہماری زمین پہلے ان گردشوں کی وجہ سے ہچکولے کھاتی تھی، تو اللہ تعالیٰ نے اس کی مختلف اطراف میں پہاڑ ایسی مناسبت سے رکھ دیے کہ ہچکولے کھانا بند ہو گئی اور دوسری تمام اشیاء کے لیے قرار بن گئی۔ اس کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ اگر زمین ہمیشہ سورج کے سامنے رہتی تو زمین کے نصف حصہ پر تو ہمیشہ دن چڑھا رہتا اور باقی نصف پر ہمیشہ رات ہی رہتی، اس طرح پوری کی پوری زمین نباتات اور سب جانداروں کے لیے بالکل ناکارہ ثابت ہوتی۔ اس لیے کہ نباتات اور جانداروں کی زندگی اور نشوونما کے لیے جیسے دن کی ضرورت ہے ویسے ہی رات کی بھی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے زمین پر رات اور دن کا نظام قائم فرما کر اسے تمام مخلوق کے لیے جائے قرار بنا دیا۔ اس کا چوتھا پہلو یہ ہے کہ زمین سے سورج کا فاصلہ اگر موجودہ فاصلے سے کم ہوتا تو تمام مخلوق گرمی کی شدت اور تپش سے مرجھا جاتی اور بالآخر ختم یا تباہ ہو جاتی اور اگر یہ فاصلہ زیادہ ہوتا تو اتنی زیادہ سردی ہوتی کہ تمام تر مخلوق سردی سے ٹھٹھر جاتی اور بالآخر تباہ یا ہلاک ہو جاتی۔ اس طرح بھی یہ زمین مخلوق کے لیے جائے قرار نہ بن سکتی تھی۔ اس کا پانچواں پہلو یہ ہے کہ ہماری زمین سورج کے گرد ۷۷ ڈگری کا زاویہ بناتے ہوئے گھوم رہی ہے، جس سے ایک تو دن اور رات کے اوقات میں بتدریج تبدیلی ہوتی رہتی ہے، کبھی دن بڑے ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور راتیں بتدریج چھوٹی ہوتی جاتی ہیں اور کبھی اس کے برعکس معاملہ شروع ہو جاتا ہے، پھر اس بنا پر موسموں میں تبدیلی آتی ہے، کبھی موسم گرما ہوتا ہے کبھی سرما، کبھی بہار، کبھی خزاں اور کبھی برسات اور ان موسموں کا مختلف قسم کی اجناس، غلے اور پھل دار درختوں کے پیدا ہونے، ان کی نشوونما اور فصلوں اور پھلوں کے پکنے سے گہرا تعلق ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ یہ نظام قائم نہ فرماتے تو پھر اس زمین پر بسنے والوں کے لیے خوراک کا مسئلہ نہایت پریشان کن صورت اختیار کر سکتا تھا۔ اس صورت میں یہ زمین ہمارے لیے جائے قرار نہ بن سکتی تھی اور اس کا چھٹا پہلو یہ ہے کہ ہماری زمین سے اوپر پانچ چھ سو میل کی بلندی تک کثیف ہوا کا کرہ بنا کر زمین کو آفات سماوی یا فضائی سے محفوظ بنا دیا گیا ہے۔ موجودہ تحقیق کے مطابق تقریباً دو کروڑ شہاب ثاقب روزانہ ۳۰ میل فی سیکنڈ کی برق رفتاری سے ہماری زمین کا رخ کرتے ہوئے گرتے ہیں۔ جب وہ اس کرۂ ہوائی میں پہنچتے ہیں تو انھیں آگ لگ جاتی ہے اور وہیں ختم ہو جاتے ہیں۔ پھر بعض اوقات زیادہ بڑی جسامت والا شہاب زمین پر گر بھی پڑتا ہے اور زمین میں گہرا گڑھا ڈال دیتا ہے، لیکن ایسا کبھی کبھار ہوتا ہے، جیسا اللہ کو منظور ہوتا ہے، عام حالات میں ہم ان سے محفوظ رہتے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ زمین کے گرد کرۂ ہوائی کا یہ انتظام نہ فرماتے تو زمین کبھی محفوظ جائے قرار نہیں بن سکتی تھی۔ غرض اس مسئلہ کے اتنے زیادہ پہلو ہیں کہ جتنا بھی ان میں غور کیا جائے مزید پہلو سامنے آتے جاتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ آیا اس نظام کائنات میں اللہ کے علاوہ کسی اور معبود کا بھی کچھ دخل ہے، خواہ یہ دخل کتنا ہی معمولی ہو؟ اگر اس سوال کا جواب نفی میں ہے تو پھر دوسروں کو اللہ کی عبادت میں کیسے شریک بنایا جا سکتا ہے؟ (تیسیر القرآن)

وَ جَعَلَ خِلٰلَهَاۤ اَنْهٰرًا: نہروں سے مراد تمام ندی نالے اور دریا وغیرہ ہیں، انھیں ایک تو بارش سے پانی مہیا ہوتا ہے، بارش کا کچھ پانی زمین اپنے اندر جذب کر لیتی ہے، باقی زائد پانی ندی نالوں کی طرف رخ کر لیتا ہے۔ ان کا سب سے بڑا منبع پہاڑ اور پہاڑوں کے درمیان چشمے ہیں۔ سردیوں میں پہاڑوں پر برف جم جاتی ہے جو گرمیوں میں پگھل کر پہلے ندی نالوں کی اور پھر دریاؤں کی صورت اختیار کر لیتی ہے، یا یہ پانی پہلے سے بنے ہوئے ندی نالوں کا رخ اختیار کر لیتا ہے۔ انھی کے ذریعے سے ان علاقوں میں سیرابی ہوتی ہے جہاں بارش کم ہوتی ہے، یا وقت پر نہیں ہوتی اور نہروں کا بالخصوص ذکر اس لیے فرمایا کہ تمام نباتات اور جانداروں کی زندگی اور نشوونما کا دارومدار پانی پر ہے۔ ہوا کے بعد پانی ایسی اہم چیز ہے جس کے بغیر کوئی چیز اپنی زندگی باقی نہیں رکھ سکتی۔ (کیلانی)

وَ جَعَلَ بَيْنَ الْبَحْرَيْنِ حَاجِزًا: اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورۂ فرقان (۵۳)۔

بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ: یعنی اکثر مشرکین حق کا علم نہیں رکھتے، اس لیے اللہ کے ساتھ شریک بناتے ہیں۔ اکثر اس لیے فرمایا کہ کچھ ایسے بھی ہیں جو حق کا علم رکھتے ہیں، مگر عناد کی وجہ سے اسے قبول نہیں کرتے۔



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.