(آیت 44) ➊ قِيْلَ لَهَا ادْخُلِي الصَّرْحَ …:” قَوَارِيْرَ “”قَارُوْرَةٌ“ کی جمع ہے، شیشے۔ ” لُجَّةً “ بہت زیادہ اور گہرا پانی۔ ” مُمَرَّدٌ “”ملائم، چکنا بنایا ہوا۔“” الصَّرْحَ “ کا معنی محل بھی ہے اور صحن بھی۔ یہ آخری چیز تھی جس نے ملکہ کی آنکھیں کھول دیں۔ پہلی چیز سلیمان علیہ السلام کا خط اور اس کا عجیب و غریب طریقے سے پہنچنا تھا، جس میں اسے تابع فرمان ہو کر حاضر ہونے کا حکم دیا گیا تھا۔ دوسری چیز سلیمان علیہ السلام کا اس کے بیش قیمت ہدیوں کو واپس کر دینا اور لشکر کشی کی دھمکی تھی۔ تیسری چیز تقریباً ڈیڑھ ہزار میل کے فاصلے سے اس کے تخت کا اس کے آنے سے پہلے پہنچ جانا تھا۔ ابتدائی ملاقات اور گفتگو کے بعد اسے سلیمان علیہ السلام کے محل میں چلنے کے لیے کہا گیا، جب اس نے صحن کو دیکھا تو سمجھی کہ یہ گہرا پانی ہے اور اس نے اپنی پنڈلیوں سے کپڑا اٹھا لیا، جیسے گہرے پانی سے گزرنے والا اپنے پائینچے چڑھا لیتا ہے۔ کیونکہ وہ بلور کا فرش تھا جس کی بناوٹ ایسی تھی کہ شیشے کے بجائے گہر ا پانی دکھائی دیتا تھا۔ سلیمان علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ پانی نہیں بلکہ نہایت صفائی کے ساتھ شیشوں کو جوڑ کر بنایا ہوا چکنا ملائم فرش ہے۔
➋ محل میں داخلے کے اس واقعہ سے سلیمان علیہ السلام کی کمال حکمت معلوم ہوتی ہے جو انھوں نے ملکہ سبا کو اسلام کی دعوت دینے کے لیے اختیار فرمائی۔ شیشے کے اس محل اور صحن کا اہتمام سلیمان علیہ السلام نے اس لیے فرمایا کہ ملکہ کو پتا چلے کہ جس ساز و سامان پر اسے اور اس کی قوم کو ناز تھا، یہاں اس سے بہت بڑھ کر سامان موجود ہے اور ساتھ ہی یہ معلوم ہو جائے کہ سورج اور ستاروں کی چمک سے مرعوب ہو کر انھیں رب سمجھ لینا ایسا ہی دھوکا ہے جیسے آدمی چمکتے شیشے کو پانی سمجھ بیٹھے۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:ـ ”اس کو اپنی عقل کا قصور اور ان (یعنی سلیمان علیہ السلام) کی عقل کا کمال معلوم ہوا، سمجھی کہ دین میں بھی جو یہ سمجھتے ہیں وہی صحیح ہے۔“(موضح) اس چیز نے اسے اس اعتراف پر مجبور کیا جو آگے آ رہا ہے۔ اس میں سلیمان علیہ السلام کی کمال حکمت کے ساتھ ملکہ کی کمال دانائی اور ذہانت بھی ظاہر ہوتی ہے کہ سلیمان علیہ السلام جو بات اسے اس طریقے سے سمجھانا چاہتے تھے، وہ سمجھ گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر شخص کی ذہنی سطح کے مطابق گفتگو ہی اس پر صحیح اثر انداز ہوتی ہے۔
➌ قَالَتْ رَبِّ اِنِّيْ ظَلَمْتُ نَفْسِيْ …: فرش کی حقیقت سے آگاہی ملکہ کے لیے توحید سے آگاہی کا ذریعہ بن گئی۔ چنانچہ اس نے کہا، اے میرے رب! میں نے اپنی جان پر ظلم کیا کہ اب تک شرک میں مبتلا رہی اور تجھے بھلائے رکھا اور اب میں سلیمان علیہ السلام کے ساتھ اللہ رب العالمین کے لیے اسلام لے آئی اور اس کی مکمل فرماں بردار بن گئی۔
تنبیہ: سلیمان علیہ السلام کے اس قصے میں بہت سی باتیں اسرائیلیات سے داخل کر دی گئی ہیں، مثلاً یہ کہ ملکہ سبا کی ماں جنات سے تھی اور یہ کہ سلیمان علیہ السلام نے اس سے نکاح کا ارادہ کیا تو انھیں بتایا گیا کہ اس کے پاؤں تو گدھے کے جسم جیسے ہیں اور اس کی پنڈلیوں پر بہت سے بال ہیں۔ اس پر انھوں نے بلور کا یہ محل بنوایا، تاکہ اس کے کپڑا اٹھانے سے اس کے پاؤں اور پنڈلیوں کو دیکھ سکیں۔ جب اس نے کپڑا اٹھایا اور سلیمان علیہ السلام نے دیکھا کہ وہ تو نہایت خوب صورت تھی، ہاں! اس کی پنڈلیوں پر بال تھے، انھوں نے جنوں سے پوچھا کہ ان بالوں کا کیا کریں تو انھوں نے بال صفا پاؤڈر ایجاد کیا، چنانچہ سلیمان علیہ السلام نے اس سے نکاح کر لیا وغیرہ۔ یہ تمام باتیں بالکل بے اصل ہیں، بلکہ سلیمان علیہ السلام جیسے شخص کی ذات پر لگائی گئی کمینی تہمتیں ہیں، جس کے متعلق اللہ تعالیٰ کی شہادت یہ ہے: « نِعْمَ الْعَبْدُ اِنَّهٗۤ اَوَّابٌ »[ صٓ: ۴۴ ]”(سلیمان) اچھا بندہ تھا، یقینا وہ بہت رجوع کرنے والا تھا۔“ اصل حقیقت یہی ہے کہ سلیمان علیہ السلام نے جو کچھ بھی کیا اسلام کی دعوت پھیلانے اور اس کا کلمہ بلند کرنے کے لیے کیا اور ان کے یہ تمام واقعات ہمارے لیے سبق ہیں۔