(آیت 39)قَالَ عِفْرِيْتٌ مِّنَ الْجِنِّ اَنَا اٰتِيْكَ بِهٖ: …:” عِفْرِيْتٌ “ کا مادہ ” اَلْعَفَرُ “ ہے، جس کا معنی مٹی ہے۔ تفسیر مراغی میں ہے: ” اَلْعِفْرِيْتُ مِنَ الْبَشَرِ: اَلْخَبِيْثُ الْمَاكِرُ الَّذِيْ يُعَفِّرُ أَقْرَانَهُ “”وہ خبیث مکار جو اپنے مقابل لوگوں کو مٹی پر گرا دے۔“ مراد جو طاقت ور ہو اور شریر ہو۔ ایک بہت طاقت ور شریر جن کہنے لگا، آپ اپنی جس مجلس میں بیٹھے ہیں آپ کے اس سے اٹھ کر جانے سے پہلے وہ تخت میں آپ کے پاس لے آؤں گا اور میں اسے لانے کی پوری قوت رکھتا ہوں اور امانت دار ہوں، یعنی کسی ہیرے، جوہر یا قیمتی چیز کی خیانت نہیں کروں گا۔ معلوم ہوتا ہے اس کی شہرت اچھی نہ تھی، اس لیے اسے اپنی صفائی پیش کرنا پڑی۔ (واللہ اعلم) سلیمان علیہ السلام کے پاس ایسے شیاطین بڑی تعداد میں موجود تھے، جیسا کہ فرمایا: « وَ مِنَ الشَّيٰطِيْنِ مَنْ يَّغُوْصُوْنَ لَهٗ وَ يَعْمَلُوْنَ عَمَلًا دُوْنَ ذٰلِكَ »[ الأنبیاء: ۸۲ ]”اور کئی شیطان جو اس کے لیے غوطہ لگاتے تھے اور اس کے علاوہ کام بھی کرتے تھے۔“